تل ابیب،07ستمبر(ہ س)۔ہزاروں اسرائیلیوں نے ہفتے کی رات تل ابیب میں ریلی نکالی جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے غزہ جنگ کو دباو¿ سے ختم کروانے اور قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کی براہِ راست اپیلیں کی گئیں۔مظاہرین نے فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر ایک عوامی چوک پر اسرائیلی پرچم لہرائے اور قیدیوں کی تصاویر والے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ ایک پلے کارڈ پر یہ بھی لکھا تھا: 'ٹرمپ کی میراث شکستگی کا شکار ہے کیونکہ غزہ جنگ جاری ہے'۔تل ابیب کے رہائشی 40 سالہ بواز نے اسرائیلی وزیرِ اعظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ دنیا میں واحد آدمی ہیں جو بی بی پر اختیار رکھتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔کئی اسرائیلیوں میں وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے لیے مایوسی بڑھ رہی ہے جنہوں نے فوج کو ایک بڑے شہری مرکز پر قبضہ کرنے کا حکم دیا ہے جہاں قیدیوں کی موجودگی کا امکان ہے۔اسرائیلی حکام کے مطابق قیدیوں کے اہلِ خانہ اور ان کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ غزہ شہر پر حملہ ان کے عزیزوں کی جانیں خطرے میں ڈال سکتا ہے اور یہ تشویش فوجی قیادت کو بھی ہے۔اورنا نیوٹرا نے حکومت پر اپنے شہریوں کو تنہا چھوڑنے کا الزام لگایا۔ ان کا فوجی بیٹا سات اکتوبر 2023 کو ہلاک ہو گیا تھا جس کی لاش غزہ میں مزاحمت کاروں کے پاس ہے۔انہوں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ہمیں واقعی امید ہے کہ امریکہ آخرِ کار ایک جامع معاہدہ طے کرنے کے لیے فریقین پر دباو ڈالے گا جس سے قیدی واپس آ جائیں۔ ان کا بیٹا عمر بھی امریکی ہے۔تل ابیب میں ہفتہ وار مظاہروں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے اور مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس سے جنگ بندی کرے۔ منتظمین نے بتایا کہ ہفتے کی رات کی ریلی میں دسیوں ہزار افراد نے شرکت کی۔ یروشلم میں بھی ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا۔ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران غزہ میں جلد ہی جنگ ختم کروانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کی دوسری مدت کے تقریباً آٹھ ماہ گذر جانے کے بعد بھی یہ معاملہ حل طلب ہے۔ جمعہ کو انہوں نے کہا، واشنگٹن حماس سے بہت گہرے مذاکرات میں مصروف ہے۔اسرائیلی افواج نے غزہ شہر کے نواحی علاقوں پر شدید حملے کیے ہیں جہاں لاکھوں فلسطینی قحط کا شکار ہیں۔ اسرائیلی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ غزہ میں بھوک موجود ہے لیکن اس سے انکار کرتے ہیں کہ علاقے کو قحط کا سامنا ہے۔ ہفتے کے روز فوج نے غزہ شہر میں شہریوں کو خبردار کیا کہ وہ وہاں سے نکل کر جنوبی غزہ چلے جائیں۔اس شہر میں لاکھوں فلسطینی پناہ گزین ہیں جو جنگ سے قبل تقریباً دس لاکھ کا مسکن تھا۔جمعے کو حماس کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں 24 سالہ اسرائیلی قیدی گائے گلبوا کو دکھایا گیا جس میں وہ کہتا ہے کہ اسے غزہ شہر میں رکھا گیا ہے اور اس شہر پر فوج کے حملے میں اس کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے قیدیوں کی ایسی ویڈیوز کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ یہ نفسیاتی جنگ ہے۔جنگ اسرائیلی معاشرے کے بعض طبقات میں غیر مقبول ہو چکی ہے اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق زیادہ تر اسرائیلی چاہتے ہیں کہ نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت حماس سے ایک مستقل جنگ بندی پر بات چیت کرے جس سے قیدیوں کی رہائی یقینی ہو۔تل ابیب سے بواز نے کہا، جنگ کا بالکل کوئی مقصد نہیں سوائے تشدد اور موت کے۔ 48 سالہ ایڈم نے کہا، یہ واضح ہو گیا ہے کہ فوجیوں کو بلامقصد جنگ کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔حماس نے عارضی جنگ بندی کے لیے کچھ قیدیوں کو رہا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ایسی ہی شرائط جولائی میں امریکہ اور عرب ریاستوں کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے خاتمے سے قبل زیر بحث آئی تھیں۔تقریباً دو عشروں سے غزہ پر حکمران حماس کا آج کل انکلیو کے بعض حصوں پر ہی کنٹرول ہے۔ اس نے ہفتے کے روز دوبارہ کہا ہے کہ اگر اسرائیل جنگ ختم کرنے اور غزہ سے اپنی فوجیں نکالنے پر راضی ہو جائے تو وہ تمام قیدیوں کو رہا کر دے گا۔نیتن یاہو ایک 'سب کچھ یا بالکل کچھ نہیں' والے معاہدے پر زور دے رہے ہیں جس میں تمام قیدیوں کو بیک وقت رہا کیا جائے اور حماس ہتھیار ڈال دے۔وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ غزہ شہر حماس کا مضبوط مقام ہے اور اسے شکست دینے کے لیے اس پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔حماس نے تسلیم کیا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد وہ غزہ پر مزید حکومت نہیں کرے گی لیکن اس نے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan