کانفرنس ہال، جماعت اسلامی میں ملک بھر سے نوجوان اہل قلم کی شرکت
نئی دہلی،04ستمبر (ہ س )۔
ادارہ ادب اسلامی ہند کے زیر اہتمام 30 اور 31 اگست 2025 کو مرکز جماعت اسلامی ہند کے کانفرنس ہال میں ایک دو روزہ ادبی تربیتی ورکشاپ ’جو عالم ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد‘ کے عنوان سے منعقد ہوا، جس میں ملک کی مختلف ریاستوں سے تقریباً چالیس منتخب نوجوان قلم کار شریک ہوئے۔
ورکشاپ کا افتتاح ڈاکٹر وقار انور (رکن مجلس اعلیٰ ادارہ ادب اسلامی ہند) کی تذکیر بالقرا?ن سے ہوا۔ کنوینر ورکشاپ مصدق مبین نے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”دو دن کا یہ ورکشاپ محض ایک وقتی ملاپ نہیں ہے۔ بلکہ ادارہ چاہتا ہے کہ آپ یہاں سے ایک چنگاری لے کر جائیں اور مطالعہ پر فوکس کریں۔ اپنے منتخب میدان میں دھار بھی پیدا کریں اور گہرائی بھی۔ اپنے ا?س پاس باصلاحیت افراد پر ہمیشہ گھات میں رہیں۔ شاعری، افسانہ، انشائیہ، تنقید، مضمون، سفرنامہ، یا ادب کی کسی بھی صنف میں جو بھی باصلاحیت اہل قلم ہیں، انہیں منظم کریں۔ غزلوں کی نغمہ سرائی کے ساتھ ساتھ خوابوں کی صورت گری بھی کریں۔ زبان و ادب کے فروغ میں شکوہ و شکایت کے بجائے، اپنا حصہ ادا کریں۔“
استقبالیہ کلمات کے بعد باہمی تعارف کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں شرکا نے تعارف کے ساتھ اپنی دلچسپیوں کا اظہار کیا۔ جس سے علمی و فکری تنوع کی جھلک نمایاں ہوئی۔
ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر پروفیسر حسن رضا نے ’ادب اسلامی کی فلسفیانہ بنیادیں‘ کے عنوان سے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے زبان و ادب کے رول، زندگی اور ادب کے رشتے کے ساتھ اسلامی ادب کی تشکیل اور اس کی ضرورت و افادیت پر بھرپور روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ادب کا مقصد محض تفریح نہیں بلکہ حقیقتِ مطلقہ اور توحید کی جمالیات کی تخلیقی تعبیر ہے۔ ان کے مطابق ادب اسلامی زندگی کی فکری اور روحانی تعمیر کا ذریعہ ہے۔
اس کے بعد سابق صدر شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی پروفیسر عبدالحق نے ’ادب کا سماجی اور نظریاتی تناظر‘ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نظریے کے بغیر ادب محض بے روح جسم ہے۔
ظہرانے کے بعد ورکشاپ کا دوسرا سیشن منعقد ہوا، جس میں ڈاکٹر خان یاسر (فیکلٹی آئی آئی آئی ایس آر، نئی دہلی) کی نگرانی میں نجات اللہ صدیقی کی کتاب ادب اسلامی (نظریاتی مقالات) کا اجتماعی مطالعہ اور اس پر گروپ مباحثہ بھی ہوا۔
اسی سیشن میں ادارہ ادب اسلامی ہند کے ناظمِ اعلیٰ جناب حسنین سائر کا مقالہ بہ عنوان ’ادارہ ادب اسلامی ہند، ماضی، حال اور مستقبل‘ ان کی عدم موجودگی میں جناب دلشاد حسین اصلاحی نے پیش کیا۔ اس کے بعد ادارہ ادب اسلامی ہند کے اغراض و مقاصد اور اس کے تنظیمی ڈھانچے کی تفہیم کے لیے دستور ادارہ کا اجتماعی مطالعہ کیا گیا۔
اسی روز مغرب کے بعد ڈاکٹر خالد مبشر (صدر ادارہ ادب اسلامی ہند، حلقہ دہلی اور اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے ’ادب بحیثیت ذہن ساز‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادیب کا قلم صرف تفریح نہیں، سماج کی تشکیل کا ہتھیار بھی ہے۔ جبکہ معروف فکشن نگار ڈاکٹر سلیم خان نے ’نظریاتی کشمکش اور ادب کا کردار، تحریک اسلامی کے حوالے سے‘ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلامی ادب کو محض تنظیمی سرگرمی نہیں بلکہ تحریک کی روح کے ساتھ اپنانا ضروری ہے۔ انہوں نے قرآن مجید کی روشنی میں نظریاتی کشمکش کی تمام اقسام کا ذکر کیا۔ بعد نمازِ عشا جناب انتظار نعیم (سابق جنرل سکریٹری ادارہ ادب اسلامی ہند) کی صدارت میں طرحی مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس میں انتظار نعیم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر شاہد حبیب فلاحی، ابوالاشبال (دہلی)، ڈاکٹر اشرف، شعیب ملک، محمد عارف (پنجاب)، غلام مصطفیٰ (مغربی بنگال)، عمار علی حیدر، سمیر بلڈانوی، قدیر اسد، محمد مجیب (مہاراشٹر)، حیدر میواتی ندوی، ندیم گوہر (ہریانہ) اور خالد سیف اللہ موتیہاری (بہار) نے اپنا کلام پیش کیا۔ نظامت کے فرائض ابوالاشبال نے انجام دیے۔
دوسرے دن کا آغاز ڈاکٹر عرفان وحید کے خطاب سے ہوا، جنہوں نے ’جدید میڈیا اور ادب‘ پر گفتگو کی اور تخلیقی اظہار کے نئے مواقع اور چیلنجز کو نمایاں کیا۔
ورکشاپ میں مختلف اصنافِ ادب پر لیکچرز کا اہتمام کیا گیا، جس میں ڈاکٹر وحید نظیر (اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے شاعری کے فنی اصول اور اس کی پانچ سطحوں کی تفہیم بیان کی۔ پروفیسر ابوبکر عباد (صدر شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی) نے افسانہ نگاری پر جامع گفتگو کی اور بتایا کہ کہانی کا فن قاری کو محسوس کرانے پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر اسد رضا (سابق ایڈیٹر راشٹریہ سہارا) نے انشائیہ نگاری کی فنی باریکیوں کو سمجھاتے ہوئے اسے ”خطرناک مگر ضروری صنف“ قرار دیا۔ اسی طرح مقالہ نگاری پر اظہار خیال کے لیے ڈاکٹر خالد مبشر کو مدعو کیا گیا، چنانچہ انہوں نے مقالہ نگاری اور تحقیق و تنقید کے عملی اصول واضح کیے۔
ظہر کے بعد ایک اہم برین اسٹارمنگ سیشن ’تحریک ادب اسلامی کا نفوذ، عملی چیلنجز اور ہماری حکمت عملی‘ کے زیر عنوان منعقد ہوا، جس کی نگرانی پروفیسر محمد نعیم فلاحی نے کی۔ شرکا نے تحریک ادب اسلامی کے فروغ، نوجوان نسل سے تعلق قائم کرنے، سوشل میڈیا کے مثبت استعمال اور معیاری تخلیقات شائع کرنے جیسے عملی اقدامات کی تجاویز بھی پیش کیں۔
ورکشاپ کے دوران ایک علمی سمپوزیم بھی ہوا جس کی صدارت پروفیسر حسن رضا نے کی۔ اس میں ڈاکٹر زاہد ندیم نے ’نسائی ادب‘، ڈاکٹر امیر حمزہ نے ’جدید ادب‘ اور محمد فرقان عالم نے ’مابعد جدید ادب‘ پر مقالے پیش کیے۔
ورکشاپ کے اختتام پر پروفیسر حسن رضا نے زور دیا کہ یہ تحریک محض ادبی بزم نہیں بلکہ قلم کے ذریعے ملت کی فکری رہ نمائی کا مشن ہے۔ شرکا کو اسنادِ شرکت اور ادارے کی مطبوعات بطورِ تحفہ پیش کی گئیں۔ جنرل سیکریٹری حسنین سائر نے تمام مہمانان اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais