تہران،14ستمبر(ہ س)۔ایران کی وزارت خارجہ نے جی سیون ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ یہ ردعمل اس بیان کے جواب میں آیا ہے جس میں جی سیون نے بیرون ملک ایرانی مخالفین کے قتل و اغوا، سائبر حملوں اور مغربی ملکوں پر میڈیا یلغار کی مذمت کی تھی۔ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’جی7‘ کی پالیسیاں ہی خطے اور دنیا کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔واضح رہے کہ ’جی7 ‘ممالک کے ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں ایران پر سرحد پار جبر، مخالفین کے قتل و اغوا کی کوششوں اور یہودی برادریوں کو خوفزدہ کرنے جیسے اقدامات کا الزام لگایا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بیرون ملک سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں جو کہ ریاستوں کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اعلامیے کے مطابق عالمی اتحاد خاموش نہیں بیٹھے گا بلکہ سکیورٹی تعاون اور معلومات کے تبادلے کے ذریعے ان سرگرمیوں کا مقابلہ کرے گا۔اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ایران کی جانب سے صحافیوں کی ذاتی معلومات اکٹھی کرنے اور انہیں افشا کرنے کی کوششیں بھی قابل مذمت ہیں، کیونکہ ان اقدامات کا مقصد مغربی معاشروں میں تقسیم پیدا کرنا ہے۔
دوسری جانب ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل نے خبردار کیا ہے کہ اگر تہران یا اس کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف کوئی دشمنانہ اقدام ہوا، بشمول سلامتی کونسل کی منسوخ شدہ قراردادوں کو دوبارہ فعال کرنے کے، تو ایران عالمی ایٹمی ادارے کے ساتھ طے پانے والی حالیہ ترتیبات پر عملدرآمد روک دے گا۔کونسل نے وضاحت کی کہ یہ ترتیبات خصوصی ایٹمی کمیٹی کی نظرثانی کے بعد طے کی گئی تھیں اور مستقبل کے کسی بھی اقدام یا رپورٹ کو قومی سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد ہی عالمی ایٹمی ادارے کو پیش کیا جائے گا۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور عالمی ایٹمی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے قاہرہ میں ملاقات کے دوران تعاون کے طریقہ کار پر اتفاق کیا۔ یہ معاہدہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملوں کے پس منظر میں طے پایا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan