فرانسیسی صدر میکرون کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ: اسرائیل اور امریکہ ناراض
پیرس،31اگست(ہ س)۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر اسرائیل اور اس کا اتحادی امریکہ ناراض ہو گئے ہیں اور غزہ میں تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل سفارتی کوششوں کا مرکز بن گیا ہے۔ دیگر مغربی ممالک نے بھی فر
فرانسیسی صدر میکرون کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ: اسرائیل اور امریکہ ناراض


پیرس،31اگست(ہ س)۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر اسرائیل اور اس کا اتحادی امریکہ ناراض ہو گئے ہیں اور غزہ میں تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل سفارتی کوششوں کا مرکز بن گیا ہے۔ دیگر مغربی ممالک نے بھی فرانس کی تقلید میں ایسے ہی اقدامات کیے ہیں۔گذشتہ ہفتے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کو ایک خط میں میکرون نے لکھا تھا، فلسطینی عوام کے اپنی ریاست دیکھنے کے لیے ہمارا عزم اس یقین پر مبنی ہے کہ ریاست اسرائیل کی سلامتی کے لیے دیرپا امن ضروری ہے۔میکرون نے مزید کہا، فرانس کی سفارتی کوششیں غزہ میں خوفناک انسانی تباہی پر ہمارے غم و غصے سے پیدا ہوئی ہیں جس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل نے جمعہ کے روز غزہ کے سب سے بڑے شہر کو جنگی علاقہ قرار دے دیا جبکہ اس علاقے کی وزارتِ صحت کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 63,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کو مسترد کرتے ہوئے غزہ میں فوجی کارروائی کو وسعت دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔اسرائیل اور امریکہ کا خیال ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے مزاحمت کاروں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبے کے باعث نیتن یاہو نے میکرون پر یہود دشمنی کی آگ کو ہوا دینے کا الزام لگایا تھا اور میکرون نے اسے قابلِ مذمت قرار دیا تھا۔ میکرون کا خط اس کے بعد سامنے آیا ہے۔گذشتہ ہفتے فرانس میں امریکی سفیر چارلس کشنر نے بھی ایک خط میں یہ دلیل دی تھی کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اشارے انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، تشدد کو ہوا دیتے ہیں اور فرانس میں یہودیوں کی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ کشنر کو فرانسیسی وزارتِ خارجہ نے طلب کیا تھا اور ان کی غیر موجودگی میں ان کے نائب پیش ہوئے۔ پیرس میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سٹریٹجک ریلیشنز کے ڈائریکٹر اور جغرافیائی سیاسیات کے ماہر پاسکل بونیفیس نے کہا، ایسا غصے والا ردِ عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ علامات اہمیت رکھتی ہیں۔ سفارتی راستے جس میں بحث کا مرکز دو ریاستی حل ہے اور (غزہ کی) زمینی صورتِ حال کے درمیان وقت کے خلاف ایک قسم کی دوڑ ہے جو ہر روز اسے قدرے پیچیدہ یا ناممکن بنا رہی ہے۔بونیفیس نے کہا کہ دو ریاستی حل کے بعض حامیوں نے رہنماو¿ں کے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا کہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کرنے کے لیے ستمبر تک انتظار کیا جائے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ تسلیم تب کیا جائے گا جب غزہ مزید قبرستان بن چکا ہو گا۔میکرون نے نیتن یاہو کے نام اپنے خط میں لکھا، غزہ پر قبضے، فلسطینیوں کی جبری نقلِ مکانی، فاقوں تک نوبت پہنچ جانے سے اسرائیل کو کبھی فتح نہیں ملے گی۔ اس کے برعکس اس سے آپ کے ملک کی تنہائی کو تقویت ملے گی، ان لوگوں کو وجہ ملے گی جو یہود دشمنی کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں اور تمام دنیا میں یہودی برادریوں کو خطرہ لاحق ہو گا۔غزہ کے سیاسی تجزیہ کار اور یورپی کونسل آن فارن ریلیشن تھنک ٹینک کے وزٹنگ فیلو محمد شہادہ نے کہا، دنیا اگلے دن پھر ویسی ہو جائے گی۔پھر بھی انہوں نے زور دیا کہ اس سے اسرائیل پر سفارتی دباو¿ بڑھتا ہے۔ شہادہ نے کہا، دو ریاستی حل کے لیے بھرپور حمایت کا مظاہرہ کرنے والی طاقتور مغربی اقوام ’اس خام خیالی کو ختم کر دیتی ہیں کہ نیتن یاہو اسرائیلیوں اور عالمی برادری کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وسیع پیمانے پر آبادی کی منتقلی یا آبادی کا خاتمہ مسئلہ فلسطین کے حل کا واحد راستہ ہے‘۔

فرانسیسی وزیرِ خارجہ ژاں نول باروٹ نے اس ہفتے اصرار کیا کہ فرانس اور سعودی عرب کی زیرِ قیادت سفارتی کوششوں کے نتیجے میں پہلی بار ایسا بھی ہوا کہ عرب لیگ کے تمام 22 ارکان نے شہریوں کے خلاف حماس کے حملوں کی خاطرخواہ مذمت کی۔جولائی میں اقوامِ متحدہ میں ایک کانفرنس کے دوران عرب لیگ کے ممالک نے اپنے اعلامیے میں اس بات پر اتفاق کیا، ’حماس کو غزہ میں اپنی حکمرانی ختم اور اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا ہوں گے۔‘شہادہ کو توقع ہے کہ اس اقدام بشمول عوام کے سامنے یہ اظہار کرنے سے اعتدال پسند فلسطینیوں کے کیمپ کو تقویت ملے گی کہ فلسطینی اتھارٹی مذاکرات میں اہمیت اختیار کر رہی ہے۔انہوں نے کہا، فلسطینیوں کو تشدد کا متبادل فراہم کرنے والا سفارتی راستہ بنا کر اور یہ پیغام بھیج کر کہ سفارتی مصروفیات نتیجہ خیز ہوں گی اور فلسطینی ریاست کی طرف لے جائیں گی جبکہ تشدد آپ کو کہیں نہیں لے جائے گا، یہ اقدام حماس کی پرتشدد ترین قیادت کو کمزور کر سکتا ہے۔فلسطینی اتھارٹی (پی اے) مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ پر مشتمل ایک آزاد ریاست کے قیام کی امید رکھتی ہے۔ حماس نے فلسطینی پارلیمانی انتخابات جیتنے کے ایک سال بعد 2007 میں جب غزہ پر قبضہ کر لیا تو پی اے کو نکال باہر کیا تھا۔ غزہ پر حماس کے قبضے کے بعد پی اے اسرائیل کے زیرِ قبضہ مغربی کنارے کے نیم خودمختار علاقوں کا انتظام کرنے تک محدود رہ گئی تھی۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande