ڈگریوں سے عہدہ تو مل سکتا ہے لیکن وہ انسان بنادے یہ ضروری نہیں : پروفیسر خواجہ اکرامنئی دہلی،25اگست(ہ س)۔دہلی کے اردو اسکولوں کے طلبہ و طالبات کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ان کے اندر اردو فن و ثقافت کا ذوق و شوق بیدار کرنے اور اس مسابقتی دور میں خود اعتمادی و حوصلہ بڑھانے کے لیے اردو اکادمی، دہلی ہر سال تعلیمی و ثقافتی مقابلے منعقد کرتی ہے، جن میں سیکڑوں طلبہ و طالبات شریک ہوتے ہیں۔ ان مقابلوں میں اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات دیے جاتے ہیں، جب کہ بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے تشجیعی انعامات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ سب سے زیادہ شرکت کرنے والے اسکول کو ''Best Participating School'' (بہترین شرکت کرنے والا اسکول) اور سب سے زیادہ انعامات حاصل کرنے والے اسکول کو ''Best Performing School'' (بہترین کارکردگی کا حامل اسکول) کی ٹرافی اور نقد انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ان مقابلوں میں تقریر، فی البدیہہ تقریر، بیت بازی، اردو ڈراما، غزل سرائی، کوئز، مضمون نویسی، خطوط نویسی، خوشخطی، امیج پینٹنگ، گروپ سانگ (پرائمری زمرہ) اور بلند خوانی (پرائمری زمرہ) شامل ہیں۔ یہ تعلیمی مقابلے دہلی کے پرائمری سے لے کر سینئر سیکنڈری سطح کے اردو اسکولوں کے درمیان منعقد کیے جاتے ہیں اور 8 ستمبر 2025 تک جاری رہیں گے۔
مقابلے اب دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ا?ج سینئر سیکنڈری زمرے کے تحت دو تقریری مقابلے منعقد ہوئے۔ صبح کے سیشن میں ہونے والے مقابلے کا عنوان تھا: ”ا?ج کے ہندوستان میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت سے کیا سیکھا جا سکتا ہے“۔ اس مقابلے میں 19 اسکولوں کے 34 طلبہ و طالبات نے حصہ لیا، جن میں سے 11 طلبہ و طالبات کو انعام کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر معروف صحافی جناب شعیب رضا فاطمی اور ڈاکٹر ارشاد نیازی نے جج کے فرائض انجام دیے۔ دوسرا فی البدیہہ تقریری مقابلہ دوپہر ڈھائی بجے منعقد ہوا۔ پہلے مقابلے کے اختتام پر ڈاکٹر ارشاد نیازی نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیج پر ا? کر اپنی بات پیش کرنا بہت بڑی بات ہے، کیونکہ بعض اوقات اساتذہ کے بھی قدم لرزنے لگتے ہیں۔ اس کے باوجود تمام طلبہ نے بھرپور اعتماد کے ساتھ اظہارِ خیال کیا۔ ان کے مطابق اس سے بہتر گفتگو ممکن نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ ایک ا?ئینہ ہوتے ہیں، جس میں استاد کی محنت اور شخصیت جھلکتی ہے۔ بچوں کی تیاری، مواد، ادائیگی اور اعتماد میں اساتذہ کی محنت شامل ہے، اس لیے اساتذہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سردار کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی سچائی، ایمانداری، انصاف پسندی، بے لوث خدمت اور ملک سے محبت تھی۔ تمام شرکائ نے ان کی شخصیت و خدمات پر روشنی ڈالی، لیکن ا?ج کے تناظر میں ان کی اہمیت پر کم توجہ دی گئی۔ مزید کہا کہ زندگی میں ہمیشہ سچائی کو اپنائیں، کیونکہ یہ ا?پ کے ضمیر کو بلند رکھے گی، اگرچہ مشکلات ا?ئیں گی۔ ا?ج کا دور مکاری اور فریب کا ہے، جو زندگی کو تباہ کرتا ہے۔جناب شعیب رضا فاطمی نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی ضد تھی، جس نے انہیں ”مردِ ا?ہن“ بنایا۔ ا?زادی کی تحریک میں شامل ہونا عہدہ حاصل کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ قید و بند، سزاو?ں اور قربانیوں کے لیے تیار رہنا تھا۔ ا?زادی کی جنگ کے سپاہی سب ایک جیسے تھے۔ طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی موضوع پر تقریر کرتے وقت اس کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو پیش کریں، اس سے ججز پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
جج صاحبان کے فیصلے کے مطابق پہلے مقابلے میں اول انعام کے لیے التمش ولد مجید( سروودیا بال ودیالیہ بلاک ۲۷، ترلوک پوری ) کو مستحق قرار دیا گیا۔دوسرے انعام کے لیے ارسلان اعظم ولد سید قیصر خالد( گورنمنٹ بوائز سینئر سیکنڈری اسکول، نمبر 2 تخمیر پور)،یمنیٰ گلریز بنت محمد گلریز( رابعہ گرلز پبلک اسکول، گلی قاسم جان) اور زاہد محمد پراچہ ولد محمد نوید پراچہ( کریسنٹ اسکول، دریا گنج) مستحق قرار دیے گئے جب کہ تیسرے انعام کے لیے ریحان ملک ولد محمد عارف(( سروودیا بال ودیالیہ بلاک 27، ترلوک پوری )، ترنم پروین بنت امتیاز احمد( نیو ہورائزن پبلک اسکول، نظام الدین( اور ماریہ رئیس بنت رئیس الدین( اینگلو عربک سینئر سیکنڈری اسکول، اجمیری گیٹ) مستحق قرار دیے گئے۔ ان کے علاوہ حوصلہ افزائی انعام کے لیے ادیبہ احمد بنت وکیل احمد( سروودیا کنیا ودیالیہ، جوگابائی)، عاطف اقبال ولد محمد اقبال( کریسنٹ اسکول، دریا گنج) اور زویا بنت محمد حنیف( راجکیہ سروودیا کنیا ودیالیہ نمبر 2، جامع مسجد) مستحق قرار دیے گئے۔
دوپہر کے بعد فی البدیہہ تقریری مقابلہ شروع ہوا۔ اس مقابلے میں جج صاحبان پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اور جناب شعیب رضا فاطمی کے مشورے سے طلبہ کو مقابلے سے محض دس منٹ قبل عنوان ”تعلیم کا مقصد: ڈگری یا کردارسازی“ دیا گیا۔ اس مقابلے میں 8 اسکولوں سے کل 16 بچوں نے شرکت کی اور کل 6 بچے انعامات کے حقدار ہوئے۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام نے کہا کہ تمام بچوں نے اس فی البدیہہ مقابلے میں اپنے موضوع پر نہایت عمدہ اور برمحل گفتگو کی۔ یہ ا?ج کے بچوں کی خصوصیت ہے کہ ان کے اندر خود اعتمادی کثرت سے پائی جاتی ہے، جو دس سال پہلے کے بچوں میں کم دکھائی دیتی تھی۔ موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ علم کا معیار لباس نہیں، بلکہ کردار اور زبان ہے۔ اگر ا?پ نے دلوں کو جیت لیا تو گویا زمانہ جیت لیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈگری سے عہدہ تو حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ انسانیت بھی پیدا کر دے۔
ججیز کے فیصلے کے مطابق اول انعام کے لیے یمنیٰ گلریز بنت محمد گلریز( رابعہ گرلز پبلک اسکول، گلی قاسم جان)، دوسرے انعام کے لیے صبغ? اللہ مشتاق ولد مشتاق احمد بھٹ( جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ) اور تیسرے انعام کے لییمیمونہ خان بنت معین خان( سید عابد حسین سینئر سیکنڈری اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ) اور حوصلہ افزائی انعام کے لییارسلان اعظم ولد قیصر خالد( گورنمنٹ بوائز سینئر سیکنڈری اسکول، نمبر 2 تخمیر پور) ، ابو احکام ولد ابو امام( سید عابد حسین سینئر سیکنڈری اسکول، جامعہ ملیہ اسلامیہ) اور عاطف اقبال ولد محمد اقبال( کریسنٹ اسکول، دریا گنج) کو مستحق قرار دیا گیا۔انعام یافتہ طلبا وطالبات کو نقد انعامات، سند اور میمنٹو جلسہ تقسیم انعامات میں پیش کیے جائیں گے۔ فی الحال بطورِ علامتی انعام (Token) اسٹیشنری آئٹم پیش کیے گئے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan