نئی دہلی،25اگست(ہ س)۔پریم چند آرکائیوز اینڈ لائبریری سینٹر(جے پی اے ایل سی)جامعہ ملیہ اسلامیہ، ڈیجیٹائیزیشن پروجیکٹ ’مارجینل ہسٹوریز:دی فاو¿نڈنگ آف جامعہ ملیہ اسلامیہ اینڈ دی اسٹرگل فار انڈیاز انڈیپنڈینس‘کے حصے کے طورپر ڈیجیٹائزیشن،فوٹوگرافی اور آرکائیوز کے موضوعات پر متعدد ورکشاپ منعقد کررہاہے۔قابل ذکر ہے کہ اس پروجیکٹ کو انڈینجیڑد آرکائیوز پروگرام(ای اے پی) برٹش لائبریری گرانٹ فراہم کررہی ہے۔بیس اگست دوہزار پچیس کو اے جے کے ماس کمیو نی کیشن رسرچ سینٹر(ایم سی آر سی) میں پی جی ڈپلوما ان اسٹل فوٹوگرافی اینڈ ویزوئل کمیو نی کیشن کے اساتذہ و طلبہ نے ورکشاپ میں شرکت کی جس میں انھیں ڈیجیٹائزیشن اور میٹا ڈاٹا کرییشن کی کاروائیوں کے متعلق بتایا گیا۔
جن مواد کو جے پی اے ایل سی محفوظ کرنا چاہتاہے وہ انیس سو پچاس سے پہلے کا ہے اوردو بڑے خانوں میں آتاہے۔پہلا خانہ وہ ہے جو جامعہ کے اولین معمار اور بانیان جامعہ جو ممتاز قومی رہنما بھی تھے ان پر مشتمل ہے۔دوسرے قسم کا مواد اہم ممتاز ادبی شخصیات کی تخلیقی وتحقیقی سرگرمیوں کا مجموعہ ہے جن سے وہ درخشاں سماجی،تہذیبی اور سیاسی منظر نامہ سامنے آتاہے جس سے جامعہ نمودار ہوئی۔یہ جے پی اے ایل سی کی نادر و نایاب املاک ہیں۔پہلے سیٹ میں مولانا محمد علی (اٹھارہ سو اٹھہتر۔انیس اکتیس)،ڈاکٹر ایم۔اے انصاری (اٹھارہ سو پچاسی۔انیس سو چھتیس) ڈاکٹر ذاکر حسین (اٹھارہ سو سنتاونوے۔ انیس سو انہتر) اور شفیق الرحمان قدوائی (انیس سو ایک۔انیس سو ترپن)شامل ہیں۔دوسرے سیٹ میں منشی پریم چند (اٹھارہ سو اسی۔انیس سو چھتیس) دیوندر سیتارتھی(انیس سو آٹھ۔دوہزار تین) پنڈت بنارسی داس چترویدی، حامد حسن قاد ری(اٹھارہ سو ستاسی۔انیس سو اسی)بیگم انیس قدوائی(انیس سو چھ۔انیس بیاسی) اور پروفیسر خواجہ احمد فاروقی(انیس سو سترہ۔انیس سو چھیاسی)جیسی ممتاز ادبی وعلمی شخصیات کی تحریریں شامل ہیں۔خطوط، ڈائریوں،مراسلات،رجسٹر،اسکریپ بک،تصاویر، تقسیم اسناد کے خطبات،اخبارات کے تراشوں، اسناد، رسائل،جرائد،نوٹ پیڈ اور نایاب کتابوں میں جامعہ کے بانیان اور اس کے اولین معماروں کے رول کی شہادتیں موجود ہیں۔
گزشتہ ہفتے یہ ورکشاپ پی جی ڈپلوما ان اسٹل فوٹوگرافی اینڈ ویزوئل کمیو نی کیشن،اے جے کے ایم سی آر سی کے طلبہ و اساتذہ کے لیے منعقد کیا گیا تھاجس سے ان ڈیجیٹائیزیشن اور میٹا ڈاٹا کرییشن سے متعلقہ جملہ کاروائیوں کا علم ہوا۔ کورس کوآرڈی نیٹر اور ایسو سی ایٹ پروفیسر سہیل اکبر نے اسے کوآرڈی نیٹ کیا تھا نیز ا س سے پہلے انھوں نے نیکون کیمرا کے استعمال کے سلسلے میں ڈیجیٹائزیشن کے ماہرین کو تربیت دینے میں اہم رو ل اداکیا تھا۔پروفیسر شوہنی گھوش،ڈائریکٹر (آفیشیئٹنگ) نے شرکا اور خصوصی ماہرین کا خیر مقدم کیا اور جے پی اے ایل سی اور ای اے پی پروجیکٹ کا مکمل جائزہ پیش کیا۔پروگرام میں آرکائیوسٹ سید محمد عامر اور شردھا شنکر کی سربراہی و رہنمائی میں ایک جے پی اے ایل سی کا ایک ٹور بھی شامل تھا۔آرکائیوسٹ سنگدھا نے نازک دستاویزات کے ساتھ احتیاط برتنے پر توجہ دیتے ہوئے ڈیجیٹائیزیشن ورک فلو کی وضاحت کی۔عاکف ستار (ڈیجیٹائزیشن ماہر) نے آرکائیول فوٹوگرافی کو درپیش انوکھے چیلینج کے متعلق بتایا جب کہ محسنہ اختر (میٹاڈاٹا کیرئٹر) نے فعال اور صحت و درست میٹا ڈاٹا تیار کرنے کے لیے معیار و اصول کو نشان زد کیا۔ شرکا کو ڈیجیٹائزیشن اور میٹا ڈاٹا کاروائیوں کا عملی تجربہ بھی ہوا۔آرکائیو سے متعلق کام میں نئی نسل کو تربیت دینے کے ساتھ نازک تہذیبی وراثت کو محفوظ کرنے کی جے پی اے ایل سی کوششوں کی میں یہ ورکشاپ ایک اہم قدم ہے۔دوہزار چار میں قائم شدہ برٹش لائبریری انڈینجرڈ آرکائیوز پروگرام (ای اے پی) کا مقصد دنیا بھر سے ایسے آرکائیول مواد جو ختم ہوسکتے ہیں ان کو محفوظ کرکے قابل رسائی بنانا ہے۔اس کا مشن ہے کہ کم از کم پچاس سال قدیم تہذیبی وراثت جو وقت کے ساتھ،خرابی،نزاع یا ماحولیاتی صدمے یا خرابی سے معدوم یا ضائع ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں ان کو محفوظ کیا جائے۔یہ پروگرام ایسے پروجیکٹوں کو فنڈ دیتا ہے جو مخطوطات و مسودات، طبع شدہ نایاب کتابیں، تصاویر اور ساو¿نڈ ریکارڈنگ جیسے مواد کو جومعدوم ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں ان کو ڈیجیٹائز کرتے ہیں۔جے پی اے ایل سی اسٹاف نے سخت جانفشانی سے ایک تفصیلی خاکہ تیار کرکے جمع کیا تھا جو کامیابی کے ساتھ مختلف مراحل کرتا ہوا گرانٹ کا مستحق قرار پایا تھا۔ای اے پی کا مینڈیٹ صرف نازک آرکائیوز کو محفوظ کرنا ہی نہیں بلکہ ورکشاپ اور ماسٹر کلاس کی مدد سے ہنرسازی کوفروغ دینا بھی ہے۔ فروغ ہنر کے اسی جذبے کے ساتھ ڈیجیٹائزیشن،فوٹوگرافی اور آرکائیوڈ ورکشاپ منعقد کرائے جاتے ہیں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan