واشنگٹن،20اگست(ہ س)۔ایک نمایاں پیش رفت میں امریکی ارب پتی ایلون مسک نے بتدریج اپنی اس منصوبہ بندی سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے جس کے تحت وہ ایک نئی سیاسی جماعت بنانے جا رہے تھے، جس کا نام امریکا پارٹی (America Party) رکھا گیا تھا۔ اس منصوبے کا اعلان جولائی کے آغاز میں امریکی دو جماعتی نظام کے متبادل کے طور پر کیا گیا تھا۔مسک کی خواہش ہے کہ وہ ٹیسلا اور اسپیس ایکس جیسی اپنی کمپنیوں پر توجہ مرکوز رکھیں اور نائب صدر جے ڈی وینس جیسے ریپبلکن رہنماو¿ں کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات برقرار رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ارب پتی سرمایہ کار نے اس منصوبے کو فی الحال مو¿خر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات سے واقف ایک ذریعے نے بتایا کہ امریکا پارٹی کے حوالے سے طے شدہ ملاقاتیں منسوخ کر دی گئی ہیں، اور مسک اب اپنی کاروباری سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ یہ بات وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہی گئی۔ تاہم اس امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا گیا کہ آئندہ، خاص طور پر وسط مدتی انتخابات کے قریب وہ اس منصوبے کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔یہ تبدیلی مسک کے اس بیان کے ایک ماہ بعد سامنے آئی ہے جب انھوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی جماعت تشکیل دیں گے جو ان امریکیوں کی نمائندگی کرے گی جو دونوں بڑی جماعتوں کے بجائے متبادل چاہتے ہیں۔
ایلون مسک ... نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں، جو کہ امریکا فرسٹ تحریک کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر مسک نے پارٹی بنانے کی طرف پیش قدمی کی تو یہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں وینس کی حمایت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ بالخصوص اگر ایلون مسک 2028 میں صدارتی امیدوار بنتے ہیں۔اگرچہ مسک نے با ضابطہ طور پر نئی جماعت بنانے کے امکان کی تردید نہیں کی، لیکن انھوں نے اس سلسلے میں تیسرے درجے کی جماعتوں کی تیاری کرنے والے ماہرین کے ساتھ طے شدہ اجلاس منسوخ کر دیے ہیں، اور اس کی وجہ کاروباری مصروفیات کو بتایا ہے۔دوسری جانب مسک کی سیاسی کوششیں اب زیادہ مرکوز دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی مہم نے 2024 میں تقریباً 30 کروڑ ڈالر ٹرمپ اور دیگر ریپبلکن رہنماو¿ں کی حمایت پر خرچ کیے، جبکہ وینس ان کے مالی اور سیاسی تعاون کے بڑے ممکنہ مستفید کنندگان میں شامل ہیں۔خیال رہے کہ مسک کی نئی جماعت بنانے کی تجویز کو بعض ریپبلکن رہنماو¿ں کی جانب سے طنز اور غیر سنجیدگی کے ساتھ لیا گیا تھا۔ یہ بات ان حلقوں کے لیے ایک کامیابی سمجھی جا رہی ہے، خاص طور پر ان وسط مدتی انتخابات سے قبل، جو اس صورت میں مشکل رخ اختیار کر سکتے ہیں اگر ریپبلکن پارٹی کے بعض ارکان نئی جماعت کے حق میں جا کھڑے ہوں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan