سپریم کورٹ میں صدرجمہوریہ کے ریفرنس پر سماعت شروع
نئی دہلی، 19 اگست (ہ س)۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے صدرجمہوریہ ہند دروپدی مرمو کی جانب سے صدر جمہوریہ اور گورنروں کے سامنے بل پیش کرنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت آئینی اختیارات پر بھیجے گئے ریفرنس پر آج سے سماعت شروع کی۔ سپریم کورٹ
Hearing on President reference begins in Supreme Court


نئی دہلی، 19 اگست (ہ س)۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے صدرجمہوریہ ہند دروپدی مرمو کی جانب سے صدر جمہوریہ اور گورنروں کے سامنے بل پیش کرنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت آئینی اختیارات پر بھیجے گئے ریفرنس پر آج سے سماعت شروع کی۔ سپریم کورٹ نے آج اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اگر گورنر بل کو طویل عرصے تک زیر التوا رکھیں تو اس پر کیا ہونا چاہیے؟ آئینی بنچ بھی کل یعنی 20 اگست کو اس معاملے کی سماعت کرے گی۔

آج سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ تمل ناڈو کے گورنر کے ذریعہ بلوں کو طویل عرصے تک زیر التوا رکھے جانے کی وجہ سے سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے فیصلہ دیا ہوگا ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی سے پوچھا کہ اگر ایسی درخواست عدالت کے سامنے آئے جس میں گورنر اس بل کو برسوں تک زیر التوا رکھے تو آئینی طور پر کیا کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے سوال کیا کہ اگر ان زیر التوا بلوں پر رضامندی قبول کرنے کا عدالت کا فیصلہ غلط ہے تو اس کے علاوہ اور کیا راستہ ہے۔ تب اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی نازک صورتحال میں بھی عدالت گورنر کا کام اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی اور بلوں پر رضامندی قبول کرنے کا فیصلہ نہیں دے سکتی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں کئی مقامات پر کہا گیا ہے کہ گورنر نے عدالتی فیصلے پر بالکل عمل نہیں کیا۔ اس کے بعد اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس کے مکمل حقائق کو دیکھنا غیر معمولی ہو گا کیونکہ آئینی بنچ دو رکنی بنچ کے فیصلے کا جائزہ لے رہی ہے۔ تب جسٹس پی ایس نرسمہا نے کہا کہ یہ فیصلہ کسی مشکل صورتحال کو حل کرنے کے لیے دیا گیا ہو سکتا ہے۔تب اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ فیصلہ ایسے ہی حالات کی نظیر بن گیا ہے۔

آئینی بنچ نے 22 جولائی کو مرکزی حکومت اور تمام ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ آئینی بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس سوریہ کانت، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس اے ایس چندورکر اور جسٹس پی ایس نرسمہا شامل ہیں۔ صدر جمہوریہ نے آئین کے آرٹیکل 143 (1) کے تحت سپریم کورٹ سے اس معاملے پر 14 آئینی سوالات پررائے طلب کی ہے۔ صدر جمہوریہ کو کسی بھی قانونی یا آئینی معاملے پر سپریم کورٹ سے مشورہ لینے کا حق حاصل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ستلج- یمنا لنک نہر تنازعہ کا معاملہ اس وقت کے صدرجمہوریہ نے سپریم کورٹ کے پاس ریفر کیا تھا۔ ریفرنس کے بعد سپریم کورٹ نے اس کی سماعت کی اور فیصلہ سنایا تھا۔

صدر جمہوریہ کا یہ ریفرنس اس لیے اہم ہے کیونکہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کے گورنر کے ذریعہ بلوں کو طویل عرصے سے زیر التوا رکھنے کے معاملے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس جے بی پاردیوالا کی سربراہی والی بنچ نے گورنر کو آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت اسمبلی سے منظور شدہ بلوں پر فیصلہ لینے کے لیے رہنما خطوط جاری کیے تھے اور کہا تھا کہ گورنر کو اسمبلی کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی بل پر فیصلہ لینے یا صدر جمہوریہ کے پاس بھیجنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے اندر- اندر فیصلہ کرنا ہو گا۔ رہنما خطوط کے مطابق، اگر گورنر ریاستی حکومت کے مشورے کے برعکس صدرجمہوریہ کو مشورہ کے لیے بل پیش کرتے ہیں، تو اس پر بھی زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے اندر فیصلہ لینا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اپنے رہنما خطوط میں کہا تھا کہ اگر ریاستی اسمبلی دوبارہ کوئی بل پاس کرتی ہے اور اسے گورنر کے پاس بھیجتی ہے تو اس پر زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / محمد شہزاد


 rajesh pande