جامعہ ملیہ اسلامیہ نے منشی پریم چند کی145ویں سالگرہ تقریب کی یاد منانے اور جامعہ سے ان کے دیرینہ تعلق کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خاص نمائش کا اہتمام کیا
نئی دہلی،11اگست(ہ س)۔ جامعہ پریم چند آرکائیوز سینٹر(جے پی اے ایل سی) کی جانب سے ہندوستان کے سرکردہ مصنفین میں سے ایک پریم چند جن کے نام سے یہ سینٹر موسوم ہواان کی ایک سو پینتالیسویں سالگرہ تقریب کی یاد سے متعلق ایک خصوصی نمائش کا اہتمام کیا تھا جو م
جامعہ ملیہ اسلامیہ نے منشی پریم چند کی145ویں سالگرہ تقریب کی یاد منانے اور جامعہ سے ان کے دیرینہ تعلق کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خاص نمائش کا اہتمام کیا


نئی دہلی،11اگست(ہ س)۔

جامعہ پریم چند آرکائیوز سینٹر(جے پی اے ایل سی) کی جانب سے ہندوستان کے سرکردہ مصنفین میں سے ایک پریم چند جن کے نام سے یہ سینٹر موسوم ہواان کی ایک سو پینتالیسویں سالگرہ تقریب کی یاد سے متعلق ایک خصوصی نمائش کا اہتمام کیا تھا جو مورخہ آٹھ اگست دوہزار پچیس کو اختتام پذیر ہوئی۔پریم چند نے ہندی اور اردو دوونوں ہی زبانوں میں یکساں قدرت کے ساتھ لکھتے تھے اور جیسا کہ ان کے ادبی سرمایے سے جھلکتاہے کہ انھو ں نے سماج کے حاشیائی طبقے کے اپنے بیانیے کے مرکز میں لاکھڑا کیا تھا۔پریم چند آرکائیوز جسے عام طورپر جے پی اے ایل سی کے نام سے جانا جاتاہے اس میں جامعہ کی صدی طویل تاریخ کے ساتھ ساتھ ادبی کلیکشن بھی محفوظ ہے جو بنیادی طورپر ہندی اور اردو میں ہے جو اس تہذیبی وثقافتی تناظر کوآئینہ کرتاہے جس سے جامعہ نے موجودہ عہد تک اپنا سفر طے کیا۔پریم چند اور ان کے معاصرین کی تخلیقی سرگرمیاں جے پی اے ایل سی کے انتہائی قابل قدر املاک ہیں۔

واضح ہوکہ یہ نمائش اکتیس جولائی دوہزار پچیس سے لگی ہوئی تھی جس میں پریم چند کے مکاتیب اور ان کے نجی کاغذات اور کتابیں اور ان پر تحریر تحقیقی مقالات کو نمائش میں رکھا گیا تھا۔وہ رسائل و جرائد بھی نمائش میں رکھے گئے تھے جن میں ان کی ادبی نگارشات شائع ہوئی تھیں۔ پریم چند کے اقتباسات کی سریز نمائش میں خصوصی توجہ کی مرکز بنی جس میں ممتاز فن کاروں کے خاکے اور تصاویر ساتھ میں تھیں۔پورے ہفتے مختلف شعبوں کے اساتذہ اور طلبہ نمائش دیکھنے کے لیے آئے۔ اکیڈمک ٹرم کی شروعات میں جامعہ کی تاریخ پر رخ ساز تربیتی پروگرام میں حصہ لینے آئے طلبہ نے بھی نمائش کو دیکھا۔ پریم چند کے ساتھ جامعہ کے تعلق کو جان کر انھیں بہت خوشی ہوئی۔ معماران جامعہ کی طرح پریم چند بھی جد و جہد آزادی سے مکمل طو رپر وابستہ تھے۔ انھوں نے سنگرام (ان کی ادارت میں نکلنے والا رسالہ) سات نومبر انیس سو بتیس کوایک اداریہ تحریر کیا جس میں جامعہ کے سیکولر اور غیر نوآبادیاتی تجربے کی تائید وتعریف کی۔ان کی یہ حمایت ایک ایسے اہم وقت پر آئی تھی جب جامعہ کو سخت مالی بحران کا سامنا تھا۔جامعہ مدیر کی درخواست کے جواب میں جسے مکتبہ جامعہ(جامعہ کا پبلشنگ ہاو¿س،پرنٹنگ پریس) شائع کیا تھا انیس سو پینتیس میں پریم چند نے اپنا مشہور زمانہ افسانہ ’کفن‘اشاعت کے لیے بھیجا۔ یہ مکتبہ جامعہ تھا جس نے پہلی مرتبہ پریم چند کا افسانہ ’کفن‘ شائع کیا تھا۔ پریم چند کی وفات کے تین سال بعد یعنی انیس سو انتالیس میں مکتبہ جامعہ نے ان کے آخری مشہور ناول گﺅ دان کا اردو ورژن چھاپا۔ یہ نمائش جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساتھ پریم چند کے دیرینہ تعلقات کو خراج پیش کرنے کے لیے تھی۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande