نئی دہلی، 16جولائی(ہ س)۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے شعبہ تاریخ و ثقافت نے ڈاکٹر محمد شاہد خان ندوی کو تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا ہے۔ اس ابھرتے ہوے مورخ کا تحقیقی کام ہندوستان کی سماجی، سیاسی، ثقافتی اور فکری تاریخ پر نئی روشنی ڈالتا ہے۔ڈاکٹرخان ندوی کا تحقیقی مقالہ نوا?بادیاتی اور عصری ہندوستان میں عقیدہ اور سیاست: جمعیت العلمائ ہند کا مطالعہ (1992–1919) کے عنوان سے ہے۔ یہ مقالہ جمعیت العلماءہند پر گزشتہ 100 برسوں میں لکھا گیا پہلا ڈاکٹریٹ کا پہلہ تحقیقی کام ہے، جو تاریخ کے میدان میں خود ا یک تاریخی سنگ میل بن گیاہے۔ڈاکٹرخان ندوی کی تحقیق ہندوستانی مذہبی و سیاسی تحریکات، ثقافتی تاریخ، سماجی و ثقافتی تبدیلیوں، فکری تحریکات، آزادی کی جدوجہد، پاکستان کے مطالبے، ا?زادی کے بعد ہندوستان میں مسلم حقوق کے تحفظ اور تاریخی شعور کی ترقی پر مرکوز ہے۔ اس مقالے کو اس کی اصل بصیرت، تجزیاتی گہرائی اور جدید ہندوستانی تاریخ نویسی میں بامعنی شراکت کے لئے علمی حلقوں میں سراہا گیا ہے۔ڈاکٹر خان ندوی نے بنیادی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے جدید تنقیدی طریقہ کار اور تاریخی بیانیے اپنائے ہیں، اور خاص طور پر جمعیت العلماءہند کے مذہبی و سیاسی علماءکے فکری اور سیاسی کردار کا نیا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کا کام ہندوستان کی کثرت پسند وراثت اور برصغیر میں عقیدہ اور سیاست کے پیچیدہ تعلقات کی گہری اور متوازن تفہیم فراہم کرتا ہے۔ڈگری حاصل کرنے پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے، ڈاکٹرخان ندوی نےاپنے نگران ڈاکٹر جاوید عالم صاحب ، شعبے کے اساتذہ اور اپنے خاندان کی غیر متزلزل حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا: جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی۔ ایچ۔ڈی۔حاصل کرنا میرے لئے ایک اعزاز اور بڑے فخر کی بات ہے۔ یہ سفر علمی لحاظ سے بھرپور اور روحانی طور پر متاثر کن رہا ہے۔ میں اپنے نگران ڈاکٹر جاوید عالم صاحب ، شعبے کے اساتذہ اور اپنے خاندان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ میرے لئے تاریخ صرف ماضی کا مطالعہ نہیں بلکہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو معاشرے کو شعور، انصاف اور اتحاد کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ڈاکٹرخان ندوی نے دو مرتبہ یو جی سی-نیٹ (تاریخ) کا امتحان کامیابی سے پاس کیا ہے اور ان کے پاس علمی قابلیتوں کا ایک نادر امتزاج ہے۔ انہوں نے لکھنویونیورسٹی سے ایم۔اے۔(تاریخ) کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے (بی۔ایس سی۔، ریاضی)، آرٹس (بی۔اے۔، تاریخ، جغرافیہ، ہندی) اور دارالعلوم ندوةالعلماء ، جو ہندوستان کا ایک معروف اسلامی ادارہ ہے، سے عالمیہ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ندوہ میں ان کے معزز اساتذہ میں: حضرت شیخ محمد رابع حسنی ندوی (آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر اور ندوہ کے چانسلر)، حضرت شیخ سعید الاعظمی ندوی (وائس چانسلر)، شیخ تقی الدین ندوی، شیخ واضح رشید ندوی، شیخ زکریا سنبھلی ندوی، شیخ عبدالعزیز بھٹکلی ندوی، شیخ سلمان حسینی ندوی، شیخ سلمان نسیم ندوی، شیخ واثق ندوی اور دیگر اساتذہ رہے۔ڈاکٹرخان ندوی کو ہندوستانی تاریخ اور سیاست پر گہری دسترس حاصل ہے، ڈاکٹر خان ندوی نے انڈین کونسل ا?ف ہسٹریکل ریسرچ (آئی سی ایچ آر) کا قومی سطح کا امتحان کامیابی سے پاس کیا، اور یہ فخر کی بات ہے کہ وہ ان پانچ مسلم امیدواروں میں شامل تھے جنہوں نے اس انتہائی مقابلتی امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے علمی دلچسپیوں میں آزادی کی تحریکات، ثقافتی تاریخ، اصلاحی علمی کام، اور خاص طور پر جمعیت العلماء ہند کے علماءکا جدید ہندوستان کی تشکیل میں کردار شامل ہے۔یہ کامیابی نہ صرف ڈاکٹر خان ندوی کی علمی وابستگی کی عکاسی کرتی ہے بلکہ تعلیم، علم اور سماجی ترقی کے لئےان کی غیر متزلزل عزم کی بھی علامت ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ڈاکٹر خان ندوی کا تعلق قدیم تاریخی جگہ پانچال راجیہ کی جنوبی دار السلطنت کامپلیہ موجودہ کمپل سے ۴ کلو میٹر دور موجود کٹیا سے ہے۔ جو قائم گنج تحصیل ،ضلع فرخ آباد اور ہندستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پرادیش میں واقع ہے۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais