قلمکار: ڈاکٹر جتیندر سنگھمرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے سائنس و ٹیکنالوجی، ارضیاتی سائنس، وزیر مملکت برائے وزیر اعظم کے دفتر، محکمہ جوہری توانائی، محکمہ خلائی تحقیق، عملہ، عوامی شکایات اور پنشنزقدیم بھارتی مہا کاویہ مہابھارت میں مہارشی ویاس کہتے ہیں”علم سب سے بڑی طاقت ہے۔“گیارہ سال قبل جب وزیر اعظم نریندر مودی نے عہدہ سنبھالا تو انہوں نے اس ازلی سچائی کو جدید عزم کے ساتھ پھر سے اجاگر کیا کہ بھارت کو صرف عالمی سائنس کا صارف نہیں بلکہ اس کا خالق بنانا ہے۔ آج جب ہم ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو پورے اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی سے جڑی 11 سالہ تبدیلی بھارت کی آئندہ بلندیوں کی نوید ہے۔اور جب ہم اس تبدیلی کے ایک عشرے سے زائد عرصے کا جشن مناتے ہیں تو محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) اس ویڑن کا زندہ ثبوت بن کر سامنے آتا ہے — جہاں لیبارٹریاں لانچ پیڈز بن گئی ہیں اور جدت طرازی (اختراع) قومی ترقی کی نئی زبان بن چکی ہے۔ جب میں نے محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر کے طور پر ذمہ داری سنبھالی تو میرے ہاتھ صرف ایک قلمدان نہیں آیا بلکہ ایک وعدہ بھی میرے کندھوں پر تھا — ایسا وعدہ کہ سائنس کو عوامی بنایا جائے، اختراعات کو مرکز سے نکال کر گاو¿ں تک پہنچایا جائے اور اس کے ثمرات آخری فرد تک پہنچیں۔2014میں بھارت کا سائنسی نظام تو فعال تھا مگر منتشر، اس کے عزائم بلند مگر وسائل محدود تھے۔ تحقیق صرف چند مخصوص اداروں تک محدود تھی اور عام شہری کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں سائنس کی ترقی کا کوئی خاص احساس نہیں ہوتا تھا۔ یہی وہ پس منظر تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سائنس کو قوم سازی کے مرکز میں لانے کی ایک سوچی سمجھی، مرحلہ وار اور جرأت مندانہ کوشش تھی۔یہ تبدیلی ایک سادہ لیکن گہری تبدیلی سے شروع ہوئی: اپنے ہی ہنر پر اعتماد2023 میں انوَسَندھان نیشنل ریسرچ فاونڈیشن (اے این ا?ر ایف) کا قیام ایک سنگِ میل تھا۔ پہلی بار بھارت نے تحقیق و ترقی (ا?ر اینڈ ڈی) کے شعبے کو سمت دینے کے لیے ایک قانونی ادارہ قائم کیا۔ وزیر اعظم ارلی کیریئر ریسرچ گرانٹ کے تحت 6,900سے زائد نوجوان سائنسدانوں کو بااختیار بنایا گیا اور شمولیتی تحقیقاتی گرانٹ کے تحت 1,754 درج فہرست ذات/درج فہرست قبائل (ایس سی ? ایس ٹی) کے محققین کو مدد دی گئی — یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سائنسی برتری اب چند افراد کی اجارہ داری نہیں رہی بلکہ یہ ایک اجتماعی قومی جستجو بن چکی ہے۔
لیکن ہم نے صرف افراد کو فنڈ فراہم کرنے پر اکتفا نہیں کیا — ہم نے ادارے بھی قائم کیے۔ نیشنل کوانٹم مشن ، جو ا?ئی ا?ئی ٹیز اور ا?ئی ا?ئی ایس سی میں قائم چار موضوعاتی مراکز پر مشتمل ہے، بھارت کو کوانٹم کمپیوٹنگ، کمیونیکیشن اور سینسنگ کے شعبے میں دنیا کی صفِ اوّل کی قیادت میں لا رہا ہے۔ اسی طرح، نیشنل سپرکمپیوٹنگ مشن کے تحت ملک بھر میں اب تک 28اعلیٰ کارکردگی والے نظام نصب کیے جا چکے ہیں، جن کی بدولت سیلاب کی پیشگی وارننگ سے لے کر نئی دواو?ں کی دریافت تک میں انقلابی پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ صرف مشینیں نہیں ہیں — یہ نئے بھارت کے انجن ہیں، جو سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔
تاہم، سائنسی ترقی کا اصل پیمانہ صرف پیٹا فلوپس یا پیٹنٹس کی تعداد میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ ترقی کتنی زندگیوں کو چھوتی ہے اور ان میں بہتری لاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ا?ئی ا?ئی ٹی ممبئی میں تیار کردہ اسمارٹ ایگری-اسٹیشن کو لیجیے، جو دور دراز علاقوں کے کسانوں کو مٹی اور موسم کی حالت بروقت میں جانچنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ یا پھر ا?ئی ا?ئی ٹی بھیلائی کا بنایا ہوا ”دِویانگ اے ٹی ایم“، جو بصارت سے محروم شہریوں کو باوقار طریقے سے بینکنگ سہولیات حاصل کرنے کا اختیار دیتا ہے۔اسی طرح، ملک بھر میں قائم 46 خواتین ٹیکنالوجی پارکوں نے 11,000 سے زائد خواتین کو سائنسی ہنر کی تربیت دے کر گھریلو خواتین کو کاروباری خواتین میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ سب محض الگ تھلگ اختراعات نہیں ہیں — یہ ایک شمولیاتی، بااختیار اور خود کفیل سماج کی بنیادیں ہیں، جن پر نئے بھارت کی تعمیر ہو رہی ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی — جو ہمارے عہد کے سب سے سنگین چیلنجوں میں سے ایک ہے — کو بھی بھارتی سائنس میں ایک پ±رعزم ساتھی مل گیا ہے۔ قومی مشن برائے ماحولیاتی تبدیلی کے تحت ہم نے 29 ریاستی موسمیاتی تبدیلی مراکز قائم کیے ہیں اور اب تک 2,000سے زائد تحقیقی مقالے اور 1,000سے زیادہ رپورٹس کی معاونت کی ہے۔ چاہے وہ ہمالیائی گلیشیئروں کا نقشہ بنانا ہو یا 1.8لاکھ سے زائد متعلقہ فریقین کو تربیت دینا — ہم صرف موسمیاتی تبدیلی کا مطالعہ ہی نہیں کر رہے، بلکہ بھارت کو تیار کر رہے ہیں کہ وہ اس تبدیلی کا مقابلہ کرے، رد عمل ظاہر کرے اور قیادت سنبھالے۔
اتنی ہی انقلابی انسانی سرمائے میں کی گئی ہماری سرمایہ کاری بھی رہی ہے۔انسپائر پروگرام نے 75,000 سے زائد یونیورسٹی طلبائ اور 6,800 ڈاکٹریٹ محققین کی معاونت کی ہے، جبکہ مانک اسکیم کے تحت 2.5 لاکھ سے زیادہ اسکول سطح کی اختراعات کو قومی سطح پر لایا گیا ہے۔ پیغام واضح ہے: ہر تجسس سے بھرپور ذہن رکھنے والا بچہ ایک ممکنہ سائنسدان ہے اور ہر گاو¿ں اختراع کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ہم نے سائنس کے جغرافیہ کو بھی نئی جہت دی ہے۔ شمال مشرق، جسے کبھی حاشیے کا علاقہ سمجھا جاتا تھا، آج زعفران کی کاشت اور ڈرون پر مبنی جیو اسپیشل میپنگ کا مرکز بن چکا ہے۔ نیکٹر اور سروے آف انڈیا کی کاوشوں سے 2 لاکھ سے زائد دیہاتوں کی 10 سینٹی میٹر کی وضاحت کے ساتھ نقشہ سازی کی گئی ہے، جس سے دیہی شہریوں کو اپنی زمین کے قانونی کاغذات ملے ہیں اور تحفظ کا نیا احساس پیدا ہوا ہے۔ان اعداد و شمار کے پیچھے ایک گہری کہانی پوشیدہ ہے — اعتماد، صلاحیت اور عزم کی کہانی۔ ہمارے سائنسدانوں پر اعتماد، ہماری نوجوان نسل کی صلاحیت اور ہماری پالیسیوں کا پختہ عزم۔ 2025-26کے بجٹ میں اعلان کردہ 1 لاکھ کروڑ روپے کا تحقیق ترقی اور اختراع (ا?ر ڈی ا?ئی) فنڈ صرف ایک مالی وعدہ نہیں، بلکہ ہمارے ارادے کا اظہار ہے۔ 20,000 کروڑ روپے کی مخصوص رقم اور ایک ”ڈیپ ٹیک فنڈ آف فنڈز“ کے ذریعے ہم نجی شعبے کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ بھارت کی سائنسی تقدیر کو ہمارے ساتھ مل کر رقم کریں۔جب ہم آگے کی جانب دیکھتے ہیں تو راستہ بیک وقت چیلنجوں سے بھرا ہوا بھی ہے اور جوش سے لبریز بھی۔ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت، روبوٹکس اور خلائی سائنس صرف سرمایہ کاری ہی نہیں بلکہ تخیل کا بھی تقاضا کرتی ہیں۔ ہمارا مقصد صرف دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملانا نہیں بلکہ رفتار طے کرنا ہے اور اس سفر میں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ سائنس کے ثمرات ہر شہری تک پہنچیں — چاہے وہ اروناچل پردیش کا ایک قبائلی کسان ہو، جھارکھنڈ کی ایک اسکول کی طالبہ ہو یا بنگلورو کا کوئی اسٹارٹ اپ بانی۔آخرکار، سائنس صرف مسائل کے حل کا نام نہیں — یہ امکانات کو وسعت دینے کا ذریعہ ہے۔ یہ ہمارے سماج کے تاریک گوشوں میں چراغ جلانے کا عمل ہے اور یہ دکھانے کا طریقہ کہ علم، جب ہمدردی اور حوصلے کے ساتھ استعمال ہو، تو واقعی ایک قوم کو بدل سکتا ہے۔
جب ہم مودی حکومت کے 11 سال کا جشن مناتے ہیں تو مجھے وزیر اعظم نریندر مودی کی یہ بات یاد آتی ہے: یہ صرف ایک حکومت نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے۔ ایک ایسی تحریک جو بھارت کو خود کفیل، عالمی سطح پر باوقار اور انسانیت سے لبریز بنانا چاہتی ہے اور اس تحریک میں، سائنس تماشائی نہیں — بلکہ پیش قدمی کی علامت ہے۔آئیے، خواب دیکھتے رہیں، دریافت کرتے رہیں اور نتیجہ خیز عمل جاری رکھیں، کیونکہ جمہوریت کی تجربہ گاہ میں سائنس کا ہر تجربہ امید کا ایک تجربہ ہوتا ہے۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan