نئی دہلی 26 جون(ہ س )۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جسٹس شیکھر یادو، جج الہ آباد ہائی کورٹ، کی جانب سے 8 دسمبر 2024 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں دی گئی تقریر کے معاملے میں مناسب کارروائی کریں۔ طویل عرصے تک مسلسل عدم کارروائی کے باعث، بورڈ نے مناسب سمجھا کہ وہ سیاسی جماعتوں کو اس بارے میں خط لکھے۔
جسٹس یادو کی تقریر بظاہر آئینی اصولوں کے تحت کی گئی تھی۔ اس تقریر کے حوالے سے، مولانا محمد فضل الرحیم مجددی، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو بھیجے گئے خط میں درج ذیل نکات اٹھائے گئے ہیں:
”محترم جج صاحب، نہ صرف اپنے عہدے کی نزاکت کو بھولتے نظر آتے ہیں بلکہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز کر رہے ہیں کہ ہمارا آئین جس قسم کی سیکولر ریاست کے تصور کو فروغ دیتا ہے، وہ تمام شہریوں کو ان کے عقائد، رسومات اور ثقافتی روایتوں کے مطابق مساوی حیثیت دینے کا ضامن ہے۔ یہی ہماری ریاست کا سیکولرزم ہے، نہ کہ وہ تعریف جسے معزز جج صاحب اپنے ذاتی مذہبی نظریات کے رنگ میں ڈھال کر پیش کر رہے ہیں۔ عقیدہ اور مذہب کی ا?زادی ہمارے معاشرتی ڈھانچے کا بنیادی جزو ہے۔ مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ باہمی تعلقات کے لئے دیگر مذہبی طبقات کے ساتھ مذہبی معاملات میں روداری ناگزیر ہے۔
محترم جج صاحب یہ بھول چکے ہیں کہ ان کا مخصوص مذہبی رجحان، جو کہ آئین کے غلط فہم کا نتیجہ ہے، ایک مخصوص مذہب کو نشانہ بنا رہا ہے، جو کہ قانون کی حکمرانی کے لئے انتہائی نقصاندہ ہے۔ ایک آئینی عدالت کے رکن ہونے کی حیثیت سے، جہاں غیرجانبداری بنیادی شرط ہے، انہوں نے ذاتی ایجنڈے کے تحت آئین کے ایک مخصوص نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے، جو کہ خود آئین کے خلاف ہے اور اس کے تدارک کے لیے آئینی نظام کے تحت فوری مداخلت کی ضرورت ہے۔“
بورڈ کا ماننا ہے کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران اس معاملے میں کوئی مو¿ثر کارروائی نہیں کی گئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی سیاسی قیادت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ ہمیں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں/طبقوں کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ بھارت کے آئین 1950 کے مطابق ملک کا آئینی کلچر کسی جج کو، جو کہ آئینی عدالت میں اپنے عہدے پر فائز ہو، جانبدار رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مزید برآں، ہمارے ملک کا تنوع اور شمولیت کی روح بھی کسی جج کو وہ رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتی جو جسٹس یادو نے اختیار کیا ہے۔ لہٰذا اب یہ ضروری ہوگیاہے کہ سیاسی جماعتیں/طبقے اس معاملے کو آئین ہند کے تحت دستیاب قانونی طریقہ کار کے مطابق اٹھائیں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais