تاریخی شہر مونگیر کے ٹاون ہال میں وقف بچاو، جمہوریت بچاو کانفرینس کا شاندار انعقاد، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی کا ولولہ انگیز صدارتی خطابمونگیر، 5 مئی(ہ س)۔تاریخی شہر مونگیر کے ٹاون ہال میں آج ایک زبردست، پرجوش اور بیداری پیدا کرنے والی وقف بچاو¿، جمہوریت بچاو¿ احتجاجی اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا، جس کی صدارت امیر شریعت بہار، اڑیسہ، جھاکھنڈ و مغربی بنگال مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر نے فرمائی۔ یہ کانفرنس آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تجویز پر، امارت شرعیہ کی قیادت خانقاہ رحمانی کی سرپرستی اور مختلف ملی و سماجی جماعتوں کی آواز اور تحریک پر منعقد ہوئی، جس میں ضلع مونگیر اور آس پاس کے علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں بلا تفریق مذہب عام لوگ اور تمام سیکولر سیاسی پارٹیز کے نمائندہ اور ملی جماعتوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ اپنے بصیرت افروز صدارتی خطاب میں امیر شریعت نے وقف کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ وقف کا نظام صرف مسلمانوں کی فلاح کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی کا ضامن ہے۔ انھوں نے کہا کہ وقف کی زمینوں پر قائم بی ایڈ کالجوں میں 80 فیصد سے زائد غیر مسلم طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، وقف کے اسپتالوں میں ہزاروں مفت آنکھوں کے آپریشن ہوتے ہیں جن کا سب سے زیادہ فائدہ غیر مسلم برادری کو پہنچتا ہے، اور دیہی علاقوں میں جن کووں سے ہندو مسلم دونوں پانی پیتے ہیں، وہ بھی اکثر وقف کی زمین پر ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کا نفاذ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور سماجی ہم آہنگی کے لیے شدید نقصان دہ ہے اور اس کا صاف اور زیادہ نقصان ہمارے برادران وطن کو ہوگا۔ حضرت امیر شریعت نے کہا کہ اس حقیقت کو ملک کے ہر شہری تک پہنچانا وقت کی ضرورت ہے کہ یہ صرف اقلیتی مسئلہ نہیں بلکہ پورے ہندوستانی سماج کے آئینی و جمہوری حقوق کا مسئلہ ہے۔اس موقع پر جامعہ رحمانی کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا جمیل احمد مظاہری نے وقف کی شرعی، آئینی اور تاریخی حیثیت پر سیر حاصل گفتگو کی، اور بتایا کہ وقف کا نظام کس طرح مسلم سماج کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کی فلاح کا ایک مستحکم ذریعہ رہا ہے۔ اجلاس کی نگرانی اور انتظامات کی ذمہ داری جامعہ رحمانی کے ناظم اور تحفظ اوقاف کمیٹی خانقاہ رحمانی مونگیر کے کنوینر الحاج مولانا محمد عارف رحمانی نے بخیر خوبی انجام دیا، اس موقع پر مونگیر کی دینی، سماجی اور سیاسی شخصیات نے بھی خطاب کیا، جن میں مولانا راغب رحمانی امام و خطیب جامع مسجد مونگیر، شاہین رضا عرف چنٹو، فیصل احمد رومی، خالد سیف اللہ، پرویز چاند، شاہد ایڈووکیٹ، آصف وسیم، پنکج یادو، پرمود یادو، مفتی برکت اللہ قاسمی، مولانا کوثر کلام اشرف، شہاب ملک، مفتی ثناءاللہ، فیروز مکھیا،خالد حسین ڈپٹی میئرمونگیر،مولانا اورنگ زیب ندوی، مولانا احمد للہ مظاہری، مکیش یادو، قاری عبداللہ بخاری اور ظفر احمد سر فہرست ہیں۔ ان مقررین نے وقف قانون میں ترمیم کی سازش کو جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف متحدہ جدوجہد کی اپیل کی۔اجلاس کا آغاز قاری وسیم احمد قاسمی، استاذ جامعہ رحمانی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ نعت رسول جناب مولانا محمد تنویر عالم ندوی نے پر سوز انداز میں پیش کی۔ نظامت کے فرائض مفتی رضی احمد ندوی، قاضی شریعت مونگیر اور جامعہ رحمانی کے شعبہ صحافت کے ایچ او ڈی فضلِ رحمٰں رحمانی نے مشترکہ طور پر انجام دیے۔
امیر شریعت کے ساتھ اس اجلاس میں خانقاہ رحمانی کے وابستگان بھی شریک رہے، جن میں حافظ محمد احتشام رحمانی، حافظ امتیاز رحمانی، مفتی صالحین ندوی، مفتی سیف الرحمٰن ندوی، مولانا مشیرالدین رحمانی ، مولانا عبد العلیم رحمانی ازہری اور ضلع مونگیر کے امن پسند شہریوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس کے علاوہ جامعہ رحمانی کے تمام اساتذہ، کارکنان، طلبہ اور متعلقین بھی خصوصیت سے اجلاس کو کامیاب بنانے میں اپنا رول ادا کیا۔ امیر شریعت کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا، جس میں ملت اسلامیہ کے اتحاد، اوقاف کے تحفظ، اور ملک میں عدل و انصاف کی بحالی کی دعائیں مانگی گئیں۔ یہ اجلاس محض ایک احتجاجی پروگرام نہیں، بلکہ ملک گیر سطح پر اوقاف کے تحفظ اور جمہوریت کے دفاع کی ایک نئی تحریک کا نقط? آغاز تھی، اور شرکاءنے عہد کیا کہ جب تک یہ کالا قانون واپس نہیں لیا جاتا، تحریک جاری رہے گی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais