تل ابیب،23مئی (ہ س)۔
اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے زور دے کر کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کو غزہ سے واپس بلایا جانا چاہیے اور جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔جمعرات کی شب العربیہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے واقعے کو غزہ میں جنگ جاری رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا ہم نیتن یاہو کی مخالفت روز بروز بڑھاتے جا رہے ہیں، اور ہم ان کے اور ان کی حکومت کے خلاف کھڑے ہیں۔اولمرٹ نے مزید کہا کہ واشنگٹن کا واقعہ وزیر خزانہ بتسلئیل سموٹرچ اور وزیر برائے قومی سلامتی ایتامار بن گوئر کے انتہا پسندانہ بیانات کا نتیجہ ہے۔انھوں نے کہا کہ نیتن یاہو اسرائیل کے اندر تقسیم اور کشیدگی کو گہرا کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے واضح کیا کہ اگرچہ نیتن یاہو کو پارلیمںٹ میں اکثریت حاصل ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوامی رائے ان کے خلاف ہے۔انھوں نے انکشاف کیا کہ اپوزیشن نے نیتن یاہو کو دائیں بازو سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ایک محفوظ پیشکش کی تھی، لیکن انھوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔اولمرٹ نے مزید کہا ہم بین الاقوامی برادری سے مدد چاہتے ہیں تاکہ بن گوئر، سموٹرچ اور نیتن یاہو سے نجات حاصل کی جا سکے۔
اولمرٹ نے کہا کہ روزانہ لاکھوں اسرائیلی جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل کے ایک بڑے طبقے کو نیتن یاہو، ان کی حکومت اور ان کی پالیسیوں پر اعتماد نہیں رہا۔اولمرٹ نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کا یہ بیان ناقابلِ قبول ہے کہ غزہ میں امداد داخل نہیں کی جا سکتی ... غزہ کی انسانی ضروریات کو پورا کیا جانا چاہیے، خواہ حماس کی طرف سے کچھ رکاوٹیں بھی ہوں۔اولمرٹ نے کہا میں ایک سال سے زائد عرصے سے غزہ میں جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ اس جنگ کو جاری رکھنا فائدہ مند نہیں ہے۔سابق وزیر اعظم کے مطابق اگر جنگ روک دی جاتی تو مزید زندہ قیدیوں کو بازیاب کرایا جا سکتا تھا۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ 7 اکتوبر کے حملے کا جواب دینا نا گزیر تھا، لیکن جنگ کو جاری رکھنا ایک سنگین غلطی ہے۔ایک اور پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے، اولمرٹ نے انکشاف کیا کہ 2008 میں انھوں نے فلسطینی صدر محمود عباس کو دو ریاستی حل پر مبنی امن منصوبہ پیش کیا تھا۔انھوں نے زور دیا کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے پ±ر امن بقائے باہمی اور دو ریاستی حل کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے۔نیتن یاہو کی جانب سے داخلی سلامتی کے ادارے (شاباک) کے لیے ڈیوڈ زینی کو نیا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا جب کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے اس پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اولمرٹ نے واضح کیا کہ یہ تقرر تب ہی ممکن ہو گا جب سپریم کورٹ اس کی منظوری دے گی۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اس تقرر کو مسترد کر دے گی۔
دوسری جانب نیتن یاہو نے قطر سے اسرائیلی وفد کو واپس بلا لیا کیوں کہ حماس کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ یہ بات اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے جمعرات کے روز بتائی۔ان ذرائع کے مطابق، نیتن یاہو نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ حماس امریکہ کی جانب سے جنگ کے خاتمے کی ضمانت پر اصرار کر رہی ہے۔ایک اسرائیلی عہدے دار نے کہا کہ بات چیت بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیل دوبارہ دوحہ جانے کو تیار ہے، اگر حماس امریکی نمائندے اسٹیو ویٹکوف کی تجویز مان لے۔ اس کے تحت سات اکتوبر 2023 سے غزہ میں قید نصف زندہ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں 40 دن سے زیادہ کی جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور جنگ کے خاتمے سے متعلق اگلے مرحلے کے مذاکرات شامل ہوں گے۔
یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فوجی کارروائیاں 18 مارچ کو دوبارہ شروع ہو گئی تھیں، جو اس سے قبل مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی معاہدے کے تحت تقریبا دو ماہ کے لیے روک دی گئی تھیں۔ معاہدے کے اگلے مرحلے پر مذاکرات میں تعطل آنے کے سبب اسرائیل نے دوبارہ سے حملے شروع کر دیے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan