اے ایم یو ٹیچرس ایسوسی ایشن اور ای سی ممبران نے انتظامیہ کے خلاف کھولا مورچہ
علی گڑھ، 19 فروری (ہ س)۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن (اے ایم یو ٹی اے) اور ٹیچرس زمرے سے اے ایم یو ایگزکیٹو کونسل کے اراکین نے مشترکہ پریس کانفرنس کرکے اے ایم یو انتظامیہ کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔ آج ٹیچرس ایسوسی ایشن کے دفتر میں منعقد پریس کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ اے ایم یو انتظامیہ اپنے مفادات کے پیش نظر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سپریم گورنگ باڈی اے ایم یو کورٹ کے انتخابات کو التوا میں رکھے ہوئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 196 میں سے 100سے زائد نشستیں خالی ہیں اور انکو بھرنے کے کوئی اقدام نہیں کئے جارہے ہیں۔اے ایم یو ٹیچرس ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر محمد خالد اور سیکریٹری پروفیسر عبید اے صدیقی نے کہا کہ 6 سال سے کورٹ کا الیکشن نہیں ہوا ہے کئی بار ہر سطح پر مطالبات کئے جاچکے ہیں لیکن نتیجہ صفر ہے۔
انھوں نے کہا کہ سابق وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کو حکومت نے ایک سال کا ایکسٹینشن دیا تھا،انھوں نے کہاکہ اس وقت کے انتظامیہ نے حکومت کو گمراہ کیا اور کہا کہ کورنا کے سبب حالات سازگار نہیں رہے ہیں اور کورٹ کے انتخاب نہیں ہوسکے ہیں ایسے میں نئے وائس چانسلر کا انتخاب بغیر کورٹ کی مناسب نمائندگی کے کرانا ٹھیک نہیں ہے۔ اسکے عوض میں حکومت نے انھیں ایک سال کا مذید وقت دیا لیکن وہ اس دور میں بھی الیکشن نہیں کراسکے اسکے بعد سابق قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے بھی اپنے ایک سال سے زائد عرصہ میں کورٹ کے الیکشن کو ضروری تصور نہیں کیا اور موجود کورٹ اراکین کی نمائندگی سے ہی نئے وائس چانسلر کے عمل کو مکمل کرادیا حالانکہ نئے وائس چانسلر پرو فیسر نعیمہ خاتون کی تقرری کا معاملہ کورٹ میں زیر التوا ہے۔
ان تمام حالات کے باوجود بھی پروفیسر نعیمہ خاتون کورٹ کا الیکشن نہیں کرارہی ہیں جو یونیورسٹی ایکٹ کی مسلسل خلاف ورزی ہے اسے اب برداشت نہیں کیا جائے گا۔اے ایم یو ایگزیکیوٹو کونسل کے اراکین پروفیسر معین الدین،ڈاکٹر مصور علی اور ڈاکٹر مراد خان نے کہا کہ وائس چانسلر کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ ایکٹ، قانون، آرڈیننس اور ضوابط پرصحیح عمل ہورہا ہے یا نہیں لیکن انکے دور میں ہی اے ایم ایکٹ پامال ہورہا ہے۔ اسکے لئے ہماری جانب سے ای سی کی میٹنگوں میں مطالبہ کیا گیا اور مسلسل خط وکتابت کی گئی لیکن کوئی جواب نہیں آیااورنہ ہی اس ضمن میں کوئی مثبت اقدامات کئے گئے ہیں اسی لئے آج ہمیں میڈیا کے سامنے تمام چیزوں کو رکھنا پڑا ہے۔انھوں نے کہا کہ نہ صرف ای سی کی بلکہ اکیڈمک کونسل کی سیٹیں بھی خالی ہیں انکو بھی پر نہیں کیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی ادارہ کو چلانے کے لئے جمہوری اقدات کو بحال کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اے ایم یو انتظامیہ کی منشا محسوس ہورہی ہے کہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ کورٹ میں اراکین کی نمائندگی ہو اور سوالات کئے جائیں وہ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی اپنے حساب سے چلائی جائے جیسا کہ وہ گذشہ کئی سالوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
اموٹا کے جوائنٹ سیکریٹری سعد جاوید اور سابق جوائنٹ سیکریٹری پروفیسر اشرف متین نے کہا کہ آج ہم لوگ جو مطالبات کررہے ہیں وہ کوئی نیا مطالبہ نہیں بلکہ حق کی بات کررہے ہیں یونیورسٹی ایکٹ اور قوانین سے چلتی ہے جسکی خلاف ورزی ہورہی ہے،انھوں نے کہا کہ اے ایم یو کا دستور ملک کی پارلیمنٹ سے پاس ہے اگر اسکی خلاف ورزی کی جارہی ہے تو ملک کے قانون کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔انھوں نے کہا کہ ہم اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ کس طرح قانونی اداروں - یونیورسٹی کورٹ، اکیڈمک کونسل اور ایگزیکٹیو کونسل میں خالی اسامیوں کے انتخابات منعقد کرنے سے انکار یونیورسٹی کے جمہوری کام کو متاثر کرتا ہے۔ اس عمل کا التوا ایک انتظامی خلا کو یقینی بناتا ہے، جس سے ادارہ جاتی سالمیت کا مادہ ختم ہو جاتا ہے۔اس لیے ہم یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ یاد دلانے پر مجبور ہیں کہ بلا تاخیر ان انتخابات کے انعقاد کے عمل کو تیز کیا جائے۔اگر اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی تو ہم یونیورسٹی کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنے جمہوری استحقاق کو استعمال کرنے سے گریزنہیں کریں گے۔ وہیں لگائے گئے الزامات کے تعلق سے یونیورسٹی انتظامیہ کے ذمہ داران نے کچھ بھی کہنے سے انکار کردیا ہے۔پریس کانفرنس میں پروفیسر محمد خالد، پروفیسر معین الدین، پروفیسر عبید اے صدیقی،ڈاکٹر مصور علی، ڈاکٹر مراد اے خاں، ڈاکٹر سعد بن جاوید، ڈاکٹر اشرف متین، ڈاکٹر ارشد باری،ڈاکٹر سدھارت وغیرہ موجود رہے۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ