داعش اور القاعدہ کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے استعمال پر سکیورٹی خدشات میں اضافہ
واشنگٹن،16دسمبر(ہ س)۔قومی سلامتی کے ماہرین اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت شدت پسند تنظیموں کے لیے ایک مو¿ثر ہتھیار بن سکتی ہے، جس کے ذریعے وہ نئے ارکان کی بھرتی، حقیقت سے قریب تر جعلی تصاویر کی تیاری اور اپنے سائبر حملوں
داعش اور القاعدہ کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے استعمال پر سکیورٹی خدشات میں اضافہ


واشنگٹن،16دسمبر(ہ س)۔قومی سلامتی کے ماہرین اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت شدت پسند تنظیموں کے لیے ایک مو¿ثر ہتھیار بن سکتی ہے، جس کے ذریعے وہ نئے ارکان کی بھرتی، حقیقت سے قریب تر جعلی تصاویر کی تیاری اور اپنے سائبر حملوں کو مزید مہلک بنا سکتی ہیں۔گذشتہ ماہ داعش سے وابستہ ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک تحریر میں تنظیم کے حامیوں کو اپنی کارروائیوں میں مصنوعی ذہانت کو شامل کرنے کی ترغیب دی گئی۔ انگریزی زبان میں لکھنے والے صارف نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کی سب سے بڑی خوبی اس کا آسان استعمال ہے۔اسی تحریر میں مزید کہا گیا کہ بعض انٹیلی جنس ایجنسیاں مصنوعی ذہانت کے ذریعے بھرتی کے عمل میں اضافے سے خوف زدہ ہیں تو ہمیں ان کے اس خوف کو حقیقت میں بدل دینا چاہیے۔

یاد رہے کہ داعش، جس نے ماضی میں عراق اور شام کے بعض علاقوں پر قبضہ کیا تھا اور اب پرتشدد نظریات رکھنے والے مسلح گروہوں کے ایک غیر مرکزی اتحاد کی صورت اختیار کر چکی ہے، برسوں پہلے یہ سمجھ چکی تھی کہ سوشل میڈیا بھرتی اور گمراہ کن معلومات پھیلانے کا ایک مو¿ثر ذریعہ ہے۔ اسی لیے قومی سلامتی کے ماہرین کے مطابق اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ مسلح گروہ مصنوعی ذہانت جیسی نئی ٹیکنالوجی آزما رہا ہے۔کم وسائل رکھنے والی غیر منظم شدت پسند تنظیمیں مصنوعی ذہانت کے ذریعے جھوٹی پروپیگنڈہ مہمات یا جعلی ویڈیوز بڑے پیمانے پر پھیلا سکتی ہیں جس سے ان کی رسائی اور اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔نیشنل سکیورٹی ایجنسی میں سکیورٹی خامیوں پر کام کرنے والے سابق محقق اور اس وقت سائبر سکیورٹی کمپنی کلیر وکٹر کے چیف ایگزیکٹو جان لالیبرٹ نے کہا ہیں، کہ کسی بھی مخالف کے لیے مصنوعی ذہانت کام آسان بنا دیتی ہے کیونکہ محدود وسائل رکھنے والے چھوٹے گروہ بھی اس کے ذریعے بڑا اثر ڈال سکتے ہیں۔چیٹ جی پی ٹی جیسے پروگراموں کے عام ہوتے ہی مسلح گروہوں نے مصنوعی ذہانت کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ بعد کے برسوں میں انہوں نے حقیقت سے قریب تر تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے لیے جنریٹو مصنوعی ذہانت کے استعمال میں مزید اضافہ کیا۔

جب اس جعلی مواد کو سوشل میڈیا کے الگورتھمز کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تو یہ نئے افراد کو اپنی طرف مائل کرنے، دشمنوں کو گمراہ یا خوف زدہ کرنے اور ایسی پروپیگنڈہ مہم چلانے کا ذریعہ بن سکتا ہے جس کا چند برس قبل تصور بھی ممکن نہیں تھا۔امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سابق اہلکار اور اس وقت وفاقی حکومت کے ساتھ کام کرنے والی سائبر سکیورٹی کمپنی ڈارک ٹریس فیڈرل کے چیف ایگزیکٹو مارکس فولر نے کہا کہ یہ گروہ اگرچہ چین، روس اور ایران سے پیچھے ہیں لیکن مصنوعی ذہانت کے زیادہ پیچیدہ استعمال کو وہ ایک پرکشش ہدف سمجھتے ہیں۔فولر کے مطابق خطرات اس قدر سنگین ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور سستی اور انتہائی مو¿ثر مصنوعی ذہانت کے پھیلاو¿ کے ساتھ یہ خطرات مزید بڑھنے کا امکان ہے۔سائبر حملہ آور پہلے ہی جعلی آواز اور ویڈیو ٹیکنالوجی کو فریب دہی کی مہمات میں استعمال کر رہے ہیں، جہاں وہ کسی اعلیٰ کاروباری یا سرکاری عہدیدار کی نقالی کر کے حساس نیٹ ورکس تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے نقصان دہ کوڈ تیار کرنا یا سائبر حملوں کے بعض پہلو خودکار بنانا بھی ممکن ہے۔سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ مسلح گروہ تکنیکی مہارت کی کمی پوری کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کو حیاتیاتی یا کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں مدد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔مارکس فولر نے کہا کہ داعش نے ابتدا ہی میں ٹوئٹر کا استعمال شروع کر دیا تھا اور سوشل میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے طریقے تلاش کر لیے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنی ترسانہ میں کسی نئے اضافے کی تلاش میں رہتے ہیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande