
استنبول، 6 نومبر (ہ س)۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات کو کم کرنے اور سرحد پار سے عسکریت پسندی کو روکنے کے مقصد سے چل رہے دو طرفہ امن مذاکرات کا چھٹا دور جمعرات کو استنبول میں شروع ہوا۔
ترکیہ کی وزارت خارجہ نے یہاں ایک پریس ریلیز میں کہا کہ دو روزہ مذاکرات استنبول کے تاریخی بیوگلو ضلع کے ایک خفیہ مقام پر شروع ہوئے۔ پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفود شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستانی وفد کی قیادت سکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے کی اور اس میں پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور وزارت داخلہ کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں افغان وفد بھی مذاکرات میں شریک ہے،جس میں قبائلی عمائدین اور سیکورٹی حکام بھی شامل ہیں۔
بیان کے مطابق مذاکرات کا یہ دور تین اہم امور پر مرکوز ہے جس میں افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ، ڈیورنڈ لائن سرحد پر تنازعات کا حل اور بند تجارتی راہداریوں کو دوبارہ کھولنا شامل ہے۔ اس سے دو طرفہ تجارت میں سالانہ 5 بلین ڈالر تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
بات چیت کے آغاز پر ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کہا کہ ”استنبول عمل نے ایک مشکل وقت میں بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ ترکیہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، جن میں مشترکہ سرحدی گشت سے لے کر اقتصادی ترغیبات شامل ہیں“۔
غور طلب ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات کا یہ دور 2,600 کلومیٹر (1,600 میل) طویل سرحد پر جھڑپوں کے بعد شروع ہوا تھا۔ اکتوبر میں، سرحد پار جھڑپوں اور ٹی ٹی پی کے حملوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں درہ خیبر کے قریب ایک خودکش بم دھماکے میں 28 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے۔ پاکستان طالبان پر ٹی ٹی پی کے جنگجووں کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے، جب کہ افغانستان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فضائی حملوں سے شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے اور افغان سرزمین میں پناہ گزینوں کے بہاو¿ میں اضافہ ہوا ہے۔
دریں اثنا، ایک سینئر پاکستانی سفارت کار کے مطابق،”پچھلے دور میں انٹیلی جنس شیئرنگ پر پیش رفت ہوئی ہے، لیکن نفاذ ایک رکاوٹ ہے۔افغان جانب سے، قائم مقام وزیر خارجہ متقی نے طلوع نیوز کو ایک بیان میں خودمختاری پر زور دیا۔ انہوں نے کہا، ”افغانستان اپنے پڑوسیوں سے اشتعال انگیزی کے بجائے امن چاہتا ہے۔ ہم ڈیورنڈ لائن کے ساتھ ایک غیر فوجی بفر زون کی تجویز پیش کرتے ہیں، جس کی نگرانی غیر جانبدار مبصرین کرتے ہیں، تاکہ دونوں طرف سے دراندازی کو روکا جا سکے۔“
ڈیورنڈ لائن دونوں ممالک کے درمیان سرحد ہے، جس کا تعین نوآبادیاتی دور میں 1893 میں کیا گیا تھا، جسے افغانستان تسلیم نہیں کرتا اور یہی آج دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کی وجہ ہے۔
دریں اثنا، افغان مفاہمتی عمل کے لیے امریکی خصوصی ایلچی تھامس ویسٹ، جو خفیہ طور پر اس عمل کی حمایت کر رہے ہیں، نے ایک بیان جاری کر کے مذاکرات کے چھٹے دور کو سراہتے ہوئے انہیں علاقائی استحکام کے لیے ضروری قرار دیا۔ چین نے بھی دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کو آگے بڑھائیں۔
ریلیز کے مطابق مذاکرات جمعہ تک جاری رہیں گے اور مذاکرات کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیے جانے کی توقع ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد