
انقرہ،05نومبر(ہ س)۔ترکیہ میں فوجی اداروں کے ایک فیصلے نے ملک بھر میں نئی بحث چھیڑ دی ہے، خاص طور پر سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر گرم گرم بحث جاری ہے۔ یہ بحث ترکیہ میں موجود شامی طلبا کو فوجی سکولوں میں شامل کرنے کے فیصلے پر جاری ہے۔یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب حکام نے اعلان کیا کہ ترکیہ کے بری اور بحری فوجی سکولوں میں 49 شامی طلبہ کو داخلہ دیا گیا ہے۔ متعدد ترک شہریوں نے غیر ملکیوں کی ایسی تربیت میں شمولیت پر شدید اعتراض کیا۔
ترکیہ کی وزارت دفاع کے ترجمان زکی اکتورک نے گذشتہ ماہ 30 اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ مختلف فوجی تربیتی پروگراموں میں شامیوں کو شامل کیا گیا ہے۔
اکتورک کے مطابق شامی فوجی اہلکاروں کو ترک مسلح افواج کی بیرکوں اور تربیتی مراکز میں تربیت دی جائے گی۔یہ اقدام 13 اگست کو ترکیہ اور شامی حکومت کے درمیان دستخط شدہ مشترکہ مشاورت اور تربیت کے معاہدے کے تحت کیا گیا ہے۔اس اعلان کے بعد ترکیہ میں شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا، کیونکہ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب پانچ ترک فوجی افسران کو گریجویشن تقریب کے دوران ہم مصطفیٰ کمال اتاترک کے سپاہی ہیں کا نعرہ لگانے پر فوج سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ان افسران کے برخاست کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جب ترک افسران کو قوم پرستی پر سزا دی جا رہی ہے تو غیر ملکی طلبہ کو فوجی تربیت کیوں دی جا رہی ہے۔ترکیہ کی قوم پرست پارٹی حزب النصر کے نائب سربراہ علی شہرلی اولو نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا ان شامی طلبہ کے بارے میں تفصیلی سکیورٹی جانچ کی گئی ہے؟سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر شدید بحث جاری ہے۔ کچھ حلقے شامی فوجیوں کے انتخاب کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ بعض اسے دفاعی اور سفارتی نقط? نظر سے ترکیہ کے مفاد میں قرار دے رہے ہیں۔اگرچہ سرکاری بیانات کے مطابق یہ اقدام ایک بین الاقوامی مفاہمتی یادداشت پر مبنی ہے تاہم ترکیہ کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں اس بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں کہ فوج میں شناختی اور سکیورٹی پالیسیوں کا مستقبل کیا ہو گا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan