غزہ میں بین الاقوامی فورس مصر اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کرے گی:ماہرین کا دعویٰ
قاہرہ،05نومبر(ہ س)۔ العربیہ اور الحدث کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ غزہ کی پٹی میں ایک بین الاقوامی فورس کے قیام کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جو متحدہ قیادت کے تحت عمل کرے گی اور مصر او ر اسرائیل کے ساتھ تعاون کرے گی۔ذرائع کے مطابق اس فورس کے
غزہ میں بین الاقوامی فورس مصر اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کرے گی:ماہرین کا دعویٰ


قاہرہ،05نومبر(ہ س)۔

العربیہ اور الحدث کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ غزہ کی پٹی میں ایک بین الاقوامی فورس کے قیام کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جو متحدہ قیادت کے تحت عمل کرے گی اور مصر او ر اسرائیل کے ساتھ تعاون کرے گی۔ذرائع کے مطابق اس فورس کے ساتھ تربیت یافتہ فلسطینی پولیس بھی ہوگی جو غزہ میں سرحدوں اور داخلی سکیورٹی کو برقرار رکھے گی۔ بتایا گیا ہے کہ فورس کو اپنے فرائض کی تکمیل کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھانے کا مکمل اختیار حاصل ہوگا۔ اس کا بنیادی ہدف غزہ میں اسلحہ کے خاتمے اور عسکری ڈھانچے کی تباہی کے ساتھ شہریوں اور امدادی کارروائیوں کا تحفظ ہوگا۔مزید یہ کہ فورس جنگ بندی کی نگرانی کرے گی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر عمل درآمد میں معاونت فراہم کرے گی۔ العربیہ اور الحدث کے مطابق اس فورس کی مالی معاونت سرکاری اور عطیہ دہندگان کے ذرائع سے کی جائے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فورس حماس کو مستقل طور پر غیر مسلح کرے گی اور فلسطینی پولیس فورس کی معاونت کرے گی۔

قبل ازیں امریکی ویب سائٹ ایکس?وس اور اسرائیلی روزنامہ یدیعوت احرونوت نے انکشاف کیا تھا کہ امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک مجوزہ قرارداد پیش کی ہے جس کے تحت غزہ میں ایک عبوری بین الاقوامی حکومت اور فورس استحکام قائم کی جائے گی، جو مصر، فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے ساتھ ہم آہنگی میں کام کرے گی۔ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ غزہ میں استحکام پیدا کرنے کے لیے ایک اہم اقدام ہو سکتا ہے، تاہم اس کے سیاسی، قانونی اور عملی پہلو پیچیدہ ہیں۔مصری فوجی ماہر لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسامہ محمود کبیر نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ کا یہ اقدام شرم الشیخ سربراہ اجلاس میں 13 اکتوبر کو طے پانے والی جنگ بندی کی پہلی مرحلہ وار استحکام کوشش کا حصہ ہے۔ ان کے مطابق دوسرا مرحلہ حماس کے اسلحے کے خاتمے اور اس کے عسکری ڈھانچے کی تحلیل سے متعلق ہو گا۔انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کا مقصد بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کو جنگ بندی کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے سے روکنا ہے، کیونکہ اسرائیل اب تک 142 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل کبیر کا کہنا تھا کہ اس منصوبے میں مصر کا نمایاں کردار نظر آتا ہے، کیونکہ قاہرہ نے سنہ2024ءمیں فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے درمیان ایک سمجھوتہ کرایا تھا جس کے مطابق جنگ کے بعد غزہ کا انتظام اتھارٹی کے ماتحت 15 فلسطینی ماہرین پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے چلایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ منصوبے کے تحت بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دی گئی تو اس کے ارکان کی شہریت کا مسئلہ اختلافات پیدا کر سکتا ہے، خصوصاً اگر حماس نے غیر ملکی نمائندگی کو مسترد کر دیا۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر محمد محمود مہران کے مطابق غزہ میں بین الاقوامی فورس کا قیام ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اس میں فلسطینی عوام کے حقوق، خودمختاری اور غیر ملکی بالادستی سے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔ڈاکٹر مہران نے وضاحت کی کہ امریکی منصوبہ دو سال کے لیے (سنہ2027ءتک) ایک بین الاقوامی سکیورٹی فورس (ISF) کے قیام کی تجویز دیتا ہے جسے طاقت کے استعمال کا اختیار حاصل ہوگا۔ اس فورس کے فرائض میں مصر اور اسرائیل کے ساتھ سرحدوں کی حفاظت، شہریوں اور امدادی راستوں کا تحفظ، فلسطینی پولیس کی تربیت، مسلح گروہوں کا اسلحہ تلف کرنا اور غزہ سے اسرائیلی انخلا کی نگرانی شامل ہوگی۔منصوبے میں غزہ پیس کونسل کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے جس کی سربراہی صدر ٹرمپ خود کریں گے۔ یہ کونسل تعمیرِ نو، مالیات اور روزمرہ انتظامی امور کی نگرانی کرے گی۔ڈاکٹر مہران نے کہا کہ منصوبے کے مثبت پہلوو¿ں میں غزہ میں امن و استحکام، امدادی سامان کی منصفانہ تقسیم، شفاف تعمیرِ نو اور اسرائیلی انخلا کی بین الاقوامی نگرانی شامل ہیں۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ کسی صورت میں یہ فورس یا کونسل فلسطینی خودمختاری کو متاثر نہ کرے اور اسے قابض اسرائیل کے مفادات کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ حماس سے اسلحہ چھیننے کا عمل صرف اس وقت کیا جانا چاہیے جب اسرائیل مکمل طور پر غزہ سے نکل جائے، کیونکہ عالمی قانون کے مطابق مقبوضہ اقوام کو مزاحمت کا حق حاصل ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande