قاسم خورشید افسانہ نگاروں کی بھیڑ میں علاحدہ شناخت رکھتے تھے:ڈاکٹر مجیر احمد آزاددربھنگہ ،11اکتوبر(ہ س)۔المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام معروف شاعر اور افسانہ نگار انور آفاقی کی رہائش گاہ پر معتبر افسانہ نگار او ر شاعر قاسم خورشید کی رحلت پر تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر انور آفاقی نے کہا کہ ڈاکٹر قاسم خورشید معتبر افسانہ نگار اور شاعر تھے۔ ان کی اچانک رحلت نے ادبی دنیا کو سوگوار کیا ہے۔ ان کا ادبی کام ناقابل فرمواش ہے۔ وہ ہمارے دلوں میں ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قاسم خورشید کی رحلت سے اردو ادب میں بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر احسان عالم (پرنسپل الحرءپبلک اسکول، دربھنگہ) نے کہا کہ قاسم خورشید کاکو جہان آباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کی والدہ اور ماموں نے ان کی پرورش کی۔ انہوں نے مشکل حالات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ زندگی بھر علم وادب سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ ملازمت کے بعد بھی اردو ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ان سے کئی ملاقاتوں کا تذکرہ انہوں نے کیا۔ ان کی رحلت سے ادب کا خسارہ ہوا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں شاعری میں قدم رکھا۔ پھر کہانیاں ، مضامین اور ڈرامے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آل انڈیا ریڈیو میں بطور عارضی اناونسر شامل ہوئے۔ نوکری کی مصروفیت کے باوجود ادب کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنائے رکھا۔ وہ ایجوکیشنل ٹیلی ویڑن سنٹر بہار میں وڈیو پروڈیوسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ لیکن ان کی اصل پہچان افسانہ نگار اور شاعر کے حیثیت سے رہی۔ اردو ، ہندی اور دوسری زبانوں کے افراد کا مجمع ہو ، سیاست دانوں کا حلقہ ہو یا مذہبی رہنما?ں کی کوئی تقریب ہو ہر جگہ یہ شخص نظر آتا۔ڈاکٹر منصور خوشتر نے کہا کہ قاسم خورشید سے میرے دیرینہ مراسم رہے ہیں۔ پٹنہ ریڈیو پر متعدد پروگرام کے لئے دربھنگہ سے مجھے بلاتے رہے۔ وہ ہندی اور اردو منچ کے یکتا تھے۔ انہوں نے دونوں زبانوں پر دسترس حاصل کی۔ وہ زندہ دل انسان تھے۔ وہ بہت والہانہ محبت کا اظہار کرتے۔ وہ دربھنگہ میں ہونے والے ہمارے زیادہ تر پروگرام میں بخوشی تشریف لاتے۔ ڈاکٹر جسیم الدین مترجم ضلع اردو زبان سیل دربھنگہ نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ قاسم خورشید صاحب کی جتنی تحریر شگفتہ تھی اتنی ہی ان کی آواز بھی پرکشش تھی۔ وہ ہر علمی مجلس میں اپنی مدبرانہ گفتگو سے سامعین کو مسحور کردیتے۔ وہ بہترین نظامت بھی کرتے تھے۔ پروفیسر محمد آفتاب اشرف ، سابق صدر شعبہ ¿ اردو ، ایل۔ این۔ ایم۔ یو، دربھنگہ نے اس موقع پر کہا کہ قاسم خورشید معروف شاعر، ادیب ،محقق اورافسانہ نگار تھے۔ کل تک جو شخصیت اپنی زندہ دلی ، اپنی مسکراہٹ ، اپنی گفتگو کے ذریعہ لوگوں کو متاثر کرتی رہی وہ آج ہمارے درمیان نہیںہے۔ڈاکٹر قاسم خورشید نہ صرف ایک مخلص انسان تھے بلکہ اردو زبان وادب کے ایک معتبر قلم کار بھی تھے۔ ان کی تحریروں میں علم و تحقیق کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی۔ انہوں نے اردولٹریچر کی خدمت خلوص دل سے کی اور نئی نسل میں علمی ذوق کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر محمد شاہنواز عالم نے کہا کہ قاسم خورشید صاحب سے میری دو ملاقاتیں تھی۔ ان دونوں ملاقاتوںمیں قوم و ملت کے امور پر ہی باتیں ہوئیں۔ آل انڈیا پٹنہ میں ان کی آواز کی بنیاد پر ان کا انتخاب ہوا۔ ان کی خانگی زندگی مشکلات سے عبارت تھی لیکن انہوں نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کیا۔ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے کہا کہ قاسم خورشید صاحب سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ امام اعظم نے ہندی فلموں میں اردو ادب پر ایک سیمینار کیا اس میں بطور مہمان خصوصی ان کی شمولیت ہوئی۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ پوسٹر تھا جو پریم چند کے طرز پر تھا۔ ان کے افسانوں کے موضوعات نہایت منفرد ہوتے۔ پریم چند کی طرح انہوں نے گا?ں کے موضوع کو اٹھایا۔ وہ افسانہ نگاروں کی بھیڑ میں علاحدہ شناخت رکھتے تھے۔ قاسم خورشید کے ایک افسانہ ”اذان“ کا اختصار بھی انہوں نے پیش کیا جو سامعین کو کافی محظوظ کیا۔ آخر میں انور آفاقی صاحب نے ایک آزاد نظم قاسم خورشید سے متعلق سنائی جس کے چند اشعار یہ ہیں:سب تڑپتے رہے/سسکتے رہے/اور ہاتھوں کو اپنے ملتے رہے/ ہائے کیسے/ ادب کی جان خورشید / سب سے منہ پھیر کے غروب ہوا۔ ٹرسٹ کے سکریٹری منصور خوشتر کے اظہار تشکر کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais