وقف پارلیمانی کمیٹی نے عام لوگوں کے جذبات کے خلاف پیش کردہ وقف بل اور اتراکھنڈ حکومت کی طرف سے ریاست میں یو سی سی کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دیا
نئی دہلی،28جنوری(ہ س)۔
جب ہندوستان جیسے متنوع ملک کو آزادی ملی، تو آئین سازوں نے تمام مذاہب اور ثقافتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک کا آئین تیار کیا اور اسے آسانی سے نافذ کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بنائے۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں حکومتیں آئین اور اس کی روح کے خلاف قوانین بنا کر ملک میں بسنے والے مختلف ثقافتوں کے شہریوں کے آئینی حقوق کو نظر انداز کر رہی ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ شادی کا معاملہ ہو یا طلاق اور جائیداد کی تقسیم کے ذاتی حق کا یا وقف املاک سے متعلق قانون کا، تمام معاملات میں موجودہ حکومتیں آئین کی بنیادی روح کو نظر انداز کرتے ہوئے قوانین مسلط کر رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اسلم احمد نے اپنے میڈیا بیان میں کہا کہ اس سے ملک کے جمہوری تانے بانے میں بدامنی پھیل رہی ہے۔ اگر حکومتیں ذاتی حقوق میں اتنی زیادہ مداخلت کرتی ہیں تو ملک کے دلت/ قبائلی/ پسماندہ اور اقلیتی برادریوں کا آئین اور عدالتی نظام سے اعتماد پوری طرح اٹھ جائے گا۔ جو کہ بہت سنگین مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے رجسٹرڈ ہونا لازمی قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی نکاح اور طلاق رجسٹر نہ کرانے پر 25 ہزار روپے جرمانہ بھی یوسی سی کے ذریہ عائد کر دیا ہے۔ حکومت جہاں ایک طرف انفرادی حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے وہیں وہ یو سی سی میں کمیونٹیز کے ثقافتی حقوق کو نظر انداز کر رہی ہے۔ لہٰذا حکومت اسے فوری طور پر واپس لے اور اس پر نظر ثانی کرے۔ اس کے پیش نظر یو سی سی کے مضر اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک آگاہی ویڈیو جاری کی ہے جسے ملک بھر میں بہت پسند کیا جا رہا ہے۔
وقف بل پر اپنے بیان میں مشہور ٹی وی پینلسٹ اور ایڈوکیٹ رئیس احمد نے کہا کہ وقف ایکٹ 1995 پر بھی حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے جو ملک میں اقلیتی مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والی وقف املاک کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا تھا۔ جہاں حکومت میڈیا اور سماج میں وقف کے خلاف جھوٹا ماحول بنا کر وقف املاک کو غصب کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ جس کے لیے گزشتہ سال مرکزی حکومت نے وقف بل کو عجلت میں پارلیمنٹ میں لایا تھا۔ لیکن جمہوریت پر یقین رکھنے والے علمائ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی شدید مخالفت کی وجہ سے اسے آل پارٹی پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے پاس بھیج دیا گیا۔ لیکن جے پی سی نے مختلف علمائ ، تنظیموں، وقف اداروں اور یہاں تک کہ اپنے ممبران کی تمام تجاویز اور احتجاج کو نظر انداز کیا اور اسے پاس کرکے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لیے بھیج دیا۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں تمام اقلیتی شہریوں کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام پر یقین رکھنے والی برادریوں میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ ملک کے شہری کسی بھی ایسے قانون کو ماننے کو تیار نہیں جو ملک کے آئین کے خلاف ہو۔ لہٰذا حکومت فوری طور پر نظر ثانی کرے اور اسے واپس لے۔ ہم سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کا از خود نوٹس لے اور اس پر فوری روک لگائے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais