
انڈین ہسٹری فورم کے ویبینار میں روچیکا شرما کا اظہار خیالنئی دہلی،27دسمبر(ہ س)۔ انڈین ہسٹری فورم کے زیر اہتمام” این سی ای آر ٹی کی تاریخ کی درسی کتابوں میں تحریفات اور نظریاتی مداخلتیں “ کے عنوان سے ایک ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس ویبینار میں معروف تاریخ داں ڈاکٹر روچیکا شرما نے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے این سی ای آر ٹی کی تاریخ کی درسی کتابوں میں حالیہ تبدیلیوں اور ملک بھر کے لاکھوں طلبہ کے تاریخی فہم اور سماجی ہم آہنگی پر ان کے منفی اثرات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا۔اپنے خطاب میں ڈاکٹر شرما نے کہا کہ 12 سے 14 سال کی عمر کے طلبہ کے لیے این سی ای آر ٹی کا نصاب، خصوصاً عہدِ وسطیٰ کی ہندوستانی تاریخ کے بیان میں واضح طور پر ایک مخصوص نظریاتی جھکاو¿ محسوس ہوتا ہے۔ ان کے مطابق مسلم حکمرانوں، بالخصوص سلاطین اور مغلوں کو لوٹ مار، غارت گری اور تباہی پھیلانے والے ظالموں کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، جبکہ غیر مسلم حکمرانوں کے اسی نوعیت کے اقدامات کو کتابوں میں بہت کم جگہ دی گئی ہے۔ چھٹویں جماعت سے آٹھویں جماعت کی درسی کتابوں کے معنوی تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ طرز بیان ایک خاص ایجنڈے کے تحت دانستہ طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ڈاکٹر روچکا شرما نے اعلیٰ ثانوی درسی کتابوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی تفصیل سے گفتگو کی، جن میں 11 اور 12 ویں جماعت کی درسی کتب میں ذات برادری کی اصطلاحات کو سماجی حقائق سے بدلنا شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلی غیر تاریخی ہے اور ذات پات کے جبری ڈھانچہ کو کمزور کر کے پیش کرتی ہے۔ انہوں نے این سی ای آر ٹی کی طرف سے ماہرین کی کمیٹیوں کی تشکیل پر بھی تشویش ظاہر کی اور کہا کہ ان کمیٹیوں میں ایسے افراد کی موجودگی نصابی فیصلوں کو متاثر کر سکتی ہے جن کی نظریاتی وابستگیاں مشکوک ہیں۔
تاریخ کی کتابوں میں مندروں کے مبینہ انہدام کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شرما نے اس رجحان کو صرف عہد وسطیٰ کے مسلم حکمرانوں سے جوڑنے کے رویے کو غلط قرار دیا۔ انہوں نے ابتدائی عہد وسطیٰ کے جنوبی ہندوستان، خصوصاً بھکتی دور، کی مثالیں پیش کیں جہاں جین مت اور بدھ مت سے وابستہ مندروں کو فرقہ وارانہ جذبے کے تحت مسمار یا تبدیل کیا گیا۔ ڈاکٹر روچکا شرما نے زور دیا کہ ہندوستان کی جدید تاریخ سے پہلے مذہبی شناخت منقسم نہیں تھی۔غیر مسلم روایات کے درمیان بھی کافی اختلافات موجود تھے۔ ان کے مطابق مندروں کی مسماری اکثر مذہب کے بجائے سیاسی اور معاشی محرکات کے تحت ہوتی تھی۔
ڈاکٹر شرما نے مغل اور راجپوت سیاسی اتحاد اور تعاون کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی۔انہوں نے ملک امبر کی جانب سے مراٹھا افواج کے استعمال کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر تنازعات میں مذہب کے بجائے سیاسی مصلحت کارفرما تھی۔ انہوں نے چھترپتی شیواجی کو ایک سخت گیر ہندو کے طور پر پیش کیے جانے پر سوال اٹھایا اور کہا کہ ایک متحدہ ہندومت نوآبادیاتی دور کی تشکیل ہے۔انہوں نے 12 ویں جماعت کی درسی کتب میں آریائی ہجرت کے مباحث سے متعلق جینیاتی مطالعات کی غلط پیش کش پر بھی تشویش ظاہر کی اور خبردار کیا کہ اس طرح کی تحریفات سے تاریخ کو فرقہ وارانہ شکل اختیار کر لینے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ریاستی سرپرستی میں کی جانے والی تحریفات کے مقابلے کے سوال پر ڈاکٹر شرما نے ماہرینِ تعلیم کو درپیش ادارہ جاتی دباو¿ کا اعتراف کیا، تاہم انہوں نے اجتماعی اور علمی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔آئی ایچ ایف کی جانب سے منعقدہ اس ویبینار کے اختتام پر رائد عزام نے اختتامی کلمات ادا کئے اور ڈاکٹر روچیکا شرما اور شرکاءکا شکریہ ادا کیا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais