
نئی دہلی، 27دسمبر(ہ س)۔عام آدمی پارٹی کے دہلی پردیش کنوینر سوربھ بھاردواج نے اُنّاو عصمت دری کیس میں بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کی سزا معطل ہونے اور اتراکھنڈ کے چرچت انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں بی جے پی کے ہی قومی جنرل سیکریٹری کا نام آنے کے باوجود ہندو تنظیموں کی خاموشی پر سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ ہندو تنظیمیں کہاں ہیں؟ نہ تو کلدیپ سینگر پر انہیں غصہ آیا اور نہ ہی انکیتا بھنڈاری معاملے میں ان کا خون کھولا؟ انہوں نے کہا کہ اُنّاو عصمت دری کیس میں آج بھی گواہوں کو مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ عدالت کو اس معاملے میں حساسیت دکھانی چاہیے تھی۔ ہائی کورٹ کا رکن اسمبلی کو پبلک سرونٹ ماننے سے انکار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سنیچر کو سوربھ بھاردواج نے کہا کہ اُنّاو عصمت دری کیس نہایت سنگین معاملہ ہے۔ یہ کیس صرف عصمت دری کا نہیں بلکہ ایک رکن اسمبلی کی جانب سے خاتون کے ساتھ عصمت دری کا ہے۔ واقعے کے بعد پورا انتظامیہ اس رکن اسمبلی کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔متاثرہ کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ جب بڑی مشکل سے ایف آئی آر درج ہوئی تو متاثرہ لڑکی کے والد کو پولیس لاک اپ میں پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔ متاثرہ کی گاڑی کا حادثہ کرا کے اس کی جان لینے کی کوشش کی گئی، جس میں دو دیگر افراد کی موت ہو گئی۔ گواہوں کو مسلسل جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس سب کے باوجود ہائی کورٹ کی جانب سے سزا پر روک لگانا انتہائی شرمناک ہے۔سوربھ بھاردواج نے کہا کہ سچائی اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہائی کورٹ کو اس معاملے میں حساسیت دکھانی چاہیے تھی۔ حد سے زیادہ تکنیکی قانونی پہلووں میں جانا اور یہ کہنا کہ رکن اسمبلی پبلک سرونٹ نہیں ہے، سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسے شخص کو پبلک سرونٹ کیوں نہیں مانا جائے گا جس کی ریاست میں حکومت چل رہی ہو اور جس کا اتنا اثر و رسوخ ہو کہ اس کے کہنے پر ایف آئی آر تک درج نہ کی جائے۔ جہاں تحویل کے اندر قتل ہو رہے ہوں، وہاں اسے پبلک سرونٹ ماننا ہی پڑے گا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais