
قلمکار:امت شاہ(مرکزی وزیر برائے امور داخلہ اور تعاون )
ہماری قوم کی تاریخ کے طویل اور متاثر کن سفر میں، متعدد فیصلہ کن لمحات آئے ہیں جب اجتماعی جذبات کو عملی شکل دیتے ہوئے، نغمات اور فنون تحریکوں کی روح بن گئے۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کی فوج کے جنگی ترانے ہوں، جدوجہد آزادی کے دوران گائے گئے حب الوطنی کے ترانے ہوں، یا ایمرجنسی کے دوران نوجوانوں کے جرات مندی کے نغمے ، گیتوں نے ہمیشہ بھارتی سماج میں اجتماعی شعور اور اتحاد کو بیدار کیا ہے۔
ان میں بھارت کا قومی گیت ‘وندے ماترم’ ہے، جس کی کہانی میدان جنگ سے شروع نہیں ہوئی بلکہ ایک مفکر، بنکم چندر چٹوپادھیائے کےآسودہ لیکن پرعزم ذہن کی اختراع ہے۔ 1875 میں، جگدھاتری پوجا (کارتک شکل نومی یا اکشے نومی) کے مبارک دن، انہوں نے ایک بھجن تیار کیا جو ملک کی آزادی کا ابدی ترانہ بن گیا۔ ان مبارک اشعار میں، انہوں نے بھارت کی سب سے گہری تہذیبی جڑوں سے، اتھرو وید کےالفاط ‘‘ماتا بھومیہ پوتر اہم پرتھیویہ’’ (‘‘زمین میری ماں ہے، اور میں اس کا بیٹا ہوں’’) سے مہاتمیہ دیوی کے مقدس ماں کے روپ کو اجا گر کیا۔
بنکم بابو کے الفاظ دعا اور پیشن گوئی دونوں تھے۔ ’وندے ماترم‘ محض ایک قومی گیت یا تحریک آزادی کا روح رواں نہیں تھا۔ یہ بنکم چندر کا ثقافتی قوم پرستی کا پہلا اعلامیہ تھا۔ اس نے ہمیں یاد دلایا کہ بھارت صرف ایک جغرافیائی علاقہ نہیں ہے، بلکہ ایک جغرافیائی ثقافتی تہذیب ہے، جو نقشے کی لکیروں سے نہیں بلکہ مشترکہ ثقافت، تاریخ، قربانی، بہادری اور مادریت سے متحد ہے۔ یہ محض زمین نہیں ہے۔ یہ ایک تیرتھ ہے، ایک مقدس مٹی جو عقیدت اور فرض سے سرشار ہے۔
جیسا کہ مہارشی اروبندو نے بیان کیا ہے، بنکم جدید بھارت کے ایک ایسے رشی تھے جنہوں نے اپنے الفاظ کے ذریعے قوم کی روح کو بیدار کیا۔ ان کا آنند مٹھ صرف ایک ناول نہیں تھا۔ یہ نثر میں ایک منتر تھا جس نے ایک سوئی ہوئی قوم کو اس کی روحانی طاقت کو دوبارہ دریافت کرنے کے لیے اکسایا۔ اپنے ایک خط میں، بنکم بابو نے لکھا، ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ اگر میری تمام تخلیقات گنگا میں ضائع ہو جائیں، یہ اکیلا بھجن ابد تک زندہ رہے گا، یہ ایک عظیم گیت ہوگا اور لوگوں کے دل جیت لے گا۔‘‘ یہ ایک دانا شخصیت کے الفاظ تھے۔ نوآبادیاتی حکمرانی کے تاریک ترین دور میں سے ایک کے دوران لکھا گیا، 'وندے ماترم' بیداری صبح کا گیت بن گیا، ایک ایسا گیت جس نے ثقافتی وقارکو تہذیبی قوم پرستی کے ساتھ جوڑ دیا۔ ایسی سطریں صرف ایک شخص ہی لکھ سکتا ہے جس کے جسم کا ریشہ ریشہ مادر وطن کے محبت کے جذبے سے سرشار ہو۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے 1896 میں،’وندے ماترم‘ کی دھن تیار کی اور کولکاتاکانگریس کے اجلاس میں اسے گایا، جس سے اس بھجن کو آواز اور لافانی حیثیت ملی۔ اس نے زبان اور خطے کی حدوں کو عبور کیا، جس کی بازگشت پورے بھارت میں پھیلی۔ تمل ناڈو میں، سبرامنیہ بھارتی نے اسے تمل میں گایا اور پنجاب میں، انقلابیوں نے اسے برطانوی حکومت کی مخالفت میں گایا۔
بنگال کی تقسیم کے دوران 1905میں، جب پورے صوبے میں بغاوت پھیل گئی، انگریزوں نے ’وندے ماترم‘ کوعوامی طور پر گانے پر پابندی لگا دی۔ اس کے باوجود 14 اپریل 1906 کو باریسال میں ہزاروں لوگوں نے حکم کی خلاف ورزی کی۔ جب پولس نے پرامن ہجوم پر لاٹھی چارج کیا تو مرد اور خواتین یکساں طور پر سڑکوں پر خون بہنے کے باوجودمتحد ہو کر ’وندے ماترم‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔
وہاں سے اس مقدس نعرے نے غدر پارٹی کے انقلابیوں کے ساتھ کیلیفورنیا کا سفر کیا۔ اس کی بازگشت آزاد ہند فوج کی صفوں میں گونجی جب نیتا جی کے سپاہیوں نے سنگاپور سے مارچ کیا۔ یہ 1946 کے رائل انڈین نیوی کی بغاوت سے گزری، جب ہندوستانی ملاحوں نے برطانوی جنگی جہازوں پر ترنگا لہرایا۔ خودی رام بوس سے لے کر اشفاق اللہ خان تک، چندر شیکھر آزاد سے لے کر تروپور کمارن تک، نعرہ ایک ہی تھا۔ اب یہ صرف ایک گیت نہیں رہا۔ یہ بھارت کی روح کی اجتماعی آواز بن چکا تھا۔ مہاتما گاندھی نے خود اعتراف کیا کہ 'وندے ماترم' میں ‘‘منجمد خون کو حرکت میں لا دینے کی جادوئی طاقت ہے۔’’ اس نے لبرل اور انقلابیوں، مفکرین اور سپاہیوں کو یکساں طور پرمتحد کیا۔ جیسا کہ مہارشی اروبندو نے اعلان کیا، یہ ‘‘بھارت کے پُنر جنم کا منتر’’ تھا۔
26 اکتوبر کو، اپنے من کی بات خطاب کے دوران، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے قوم کو وندے ماترم کی شاندار میراث کی یاد دلائی۔ اس لافانی بھجن کے 150 سال پورے ہونے پر، حکومت ہند نے 7 نومبر سے شروع ہونے والے ایک سال کے لیے ملک گیر پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان تقریبات کے ذریعے، ‘وندے ماترم’ کا مکمل ورژن ایک بار پھر پورے ملک میں گونجے گا، جو نوجوانوں کو ‘ثقافتی قوم پرستی’ کا نظریہ اپنے اندر داخل کرنےکی ترغیب دے گا۔
جیسا کہ ہم بھارت پرو کا جشن مناتے ہیں اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ان کی یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ہمیں یاد دلایا جاتا ہے کہ کس طرح سردار کا بھارت کا اتحاد ‘وندے ماترم’ کے جذبے کا جاوداں عکس تھا۔ یہ نغمہ محض ماضی کی یاد نہیں بلکہ مستقبل کی دعوت بھی ہے۔ آج بھی، وندے ماترم ایک وکست بھارت 2047 کے ہمارے نظریہ کو متاثر کرتا ہے جو ایک پراعتماد، خود انحصار اورنو تعمیر شدہ بھارت پر مبنی۔ یہ ہماری تہذیبی خود اعتمادی کا ترانہ ہے اور اب اس جذبے کو عملی جامہ پہناناہماری ذمہ داری ہے۔
‘وندے ماترم’ آزادی کا ترانہ ہے، غیر متزلزل عزم کا جذبہ اور بھارت کی بیداری کا پہلا منتر ہے۔ قوم کی روح سے پیدا ہونے والے الفاظ کبھی نہیں مرتے۔ وہ زندہ رہتے ہیں، مختلف ادوار اور نسلوں تک گونجتے رہتے ہیں۔ یہ مقدس نعرہ ابد تک گونجتا رہے گا، ہمیں یاد دلاتا رہے گا کہ ہم اپنی تاریخ، اپنی ثقافت، اپنی اقدار اور اپنی روایات کو بھارتیتا (ہندوستانیت) کے نظریےسے دیکھیں۔
وندے ماترم!
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / عطاءاللہ