
اورنگ آباد ، 6 نومبر(ہ س)۔
ریاستی
محکمہ زراعت نے جمعرات کے روز اس چھ روپے کی رقم کی وضاحت جاری کی جو ایک کسان کے
بینک کھاتے میں جمع ہوئی تھی۔ محکمے کے مطابق یہ رقم فصل کے نقصانات کے معاوضے کے
بجائے سود کی ادائیگی تھی، جو نظام کے تحت خود بخود جمع ہوئی۔
یہ
معاملہ اس وقت موضوعِ بحث بنا جب اورنگ آباد ضلع کے پیٹھن تعلقہ کے دوارواڑی گاؤں
کے کسان دگمبر سدھاکر تگڑے نے اس معمولی رقم پر برہمی ظاہر کی۔ تگڑے کے مطابق وہ مانسون
کی طوفانی بارشوں سے ہونے والے زرعی نقصان کے معاوضے کے منتظر تھے، مگر جب ان کے
اکاؤنٹ میں صرف چھ روپے آئے تو انہیں حیرت اور غصہ ہوا۔
انہوں
نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ رقم تو ایک کپ چائے بھی نہیں خرید سکتی‘‘
اور اسے ’’کسانوں کی بدحالی کا مذاق‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ
کسانوں کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔
محکمہ
زراعت کے ضلع افسر پی آر دیشمکھ نے وضاحت دی کہ یہ رقم فصل بیمہ اسکیم یا پردھان
منتری فصل بیمہ یوجنا سے متعلق نہیں بلکہ بینک سود کی معمولی ادائیگی تھی۔
تگڑے نے
اپنی شکایت اس وقت پیش کی جب شیوسینا (یو بی ٹی) کے رہنما ادھو ٹھاکرے نے پٹھان کے
ناندرگاؤں کا دورہ کیا اور سیلاب زدہ کسانوں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے
کہا کہ حکومت نے اب تک خاطر خواہ مدد فراہم نہیں کی۔
مراٹھواڑہ
میں اگست اور ستمبر 2025 کے دوران شدید بارشوں سے فصلوں کو نقصان پہنچا تھا۔ حکومت
نے ریلیف پیکج کا اعلان تو کیا، لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ معاوضہ یا تو تاخیر سے
مل رہا ہے یا معمولی مقدار میں۔
اکولہ
سمیت کئی اضلاع میں کسانوں نے تین سے اکیس روپے تک کے معاوضے موصول ہونے کی اطلاع
دی۔ متعدد کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے چیک واپس کیے اور ان ادائیگیوں کو ’’توہین
آمیز‘‘ قرار دیا۔
زرعی
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعات انتظامی سطح پر موجود خامیوں اور سرکاری وعدوں و
عملی اقدامات کے درمیان فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔ کسانوں کی بڑھتی مالی تنگی کے سبب
قرضوں کی واپسی اور روزمرہ زندگی دشوار ہو چکی ہے۔
چھ روپے
کے سودی کریڈٹ کی یہ وضاحت اگرچہ محکمے نے جاری کر دی، لیکن اس نے ریاست میں زرعی
معاوضے کے نظام پر شفافیت اور احتساب کے نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
ہندوستھان
سماچار
--------------------
ہندوستان سماچار / جاوید این اے