
علی گڑھ, 10 نومبر (ہ س)۔
پروفیسر اطہر صدیقی ان چنندہ لوگوں میں سے تھے جو سائنس کے میدان میں رہتے ہوئے اردو زبان و ادب کے میدان میں بھی سرگرم تھے اور دونوں میدانوں میں انھوں نے اپنی خدمات سے نام کمایا۔ ان کی علمی و ادبی تحریروں اور ان سے متعلق دیگر دانشوروں کی اہم تحریروں کو کتابی شکل میں مرتب کیا گیا ہے جس کی رونمائی سرسید اکیڈمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں آج منعقدہ ایک پروقار تقریب میں عمل میں آئی۔اس موقع پر پروفیسر اطہر صدیقی کے صاحبزادے سہیل صدیقی اور دختر طاب صدیقی نے اے ایم یو کے شعبہ زولوجی کے دو طلبہ کے لئے دی علی گڑھ الومنئی ایسوسی ایشن، واشنگٹن ڈی سی کے اشتراک سے پروفیسر اطہر صدیقی لائف ٹائم اسکالرشپ شروع کرنے کا اعلان کیا۔
مسٹر سہیل اور طاب صدیقی نے اس سلسلہ میں ایک اعلامیہ شعبہ زولوجی کی سربراہ پروفیسر قدسیہ تحسین کے سپرد کیا۔ اس موقع پر پروفیسر ذکیہ اطہر صدیقی موجود تھیں۔ شعبہ کے دو طلبہ کا انتخاب دی علی گڑھ الومنئی ایسوسی ایشن، واشنگٹن ڈی سی کی اسکالرشپ کمیٹی کرے گی۔ تقریب کی صدارت کرتے ہوئے ابن سینا اکیڈمی کے بانی پروفیسر حکیم سید ظل الرحمٰن نے پروفیسر اطہر صدیقی سے نصف صدی پر محیط اپنے دیرینہ مراسم کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر اطہر صدیقی ان لوگوں میں سے تھے جو سائنس کی دنیا میں سرگرم رہنے کے ساتھ اپنی تہذیبی روایات سے بھی جڑے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی سبکدوشی کے بعد بھی خود کو تا دمِ آخر مصروف رکھا اور اردو کے حوالے سے بے شمار کام کئے۔ انھوں نے بتایا کہ طالب علمی کے زمانے میں بھی ہاسٹل میں جناب اطہر صدیقی کے کمرہ میں اردو کی کتابیں رہا کرتی تھیں، جن پر ان کے ساتھی حیرت کرتے تھے۔ پروفیسر ظل الرحمٰن نے ”بیادِ پروفیسر اطہر صدیقی“ کی اشاعت کے لئے اس کے مرتبین مہر الٰہی اور پروفیسر صغیر افراہیم سمیت پروفیسر صدیقی کے اہل خانہ کا شکریہ ادا کیا۔
پروفیسر قدسیہ تحسین نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پروفیسر اطہر صدیقی کی شخصیت، امتیاز و کمال کا پیکر تھی۔ وہ اپنے طلبہ کی ہمہ وقت حوصلہ افزائی کرتے تھے، جس کی وجہ سے طلبہ ان کی کلاس سے کبھی غیرحاضر نہیں ہوتے تھے۔ سرسید اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سائنس میں پروفیسر اطہر صدیقی کے کمالات سے سبھی واقف ہیں، تاہم اردو ادب کے تئیں ان کا شغف مثالی ہے۔ انھوں نے اردو حلقہ کو انٹرنیٹ کی کہانیوں سے متعارف کرایا۔ یہ مختلف ذائقہ کی کہانیاں ہیں جو اردو حلقہ کے لئے نئی تھیں اور انھیں بہت پسند کیا گیا۔ کہانیوں سے لے کر سوانح، سفرنامہ، آپ بیتی،
خود نوشت، خاکے اور انٹرویو جیسی اصناف ادب پر انھوں نے طبع آزمائی کی۔ فیس بُک اور سوشل میڈیا پر آنے والی چنندہ کہانیوں کو انھوں نے اردو میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ یہ کہانیاں ماہنامہ تہذیب الاخلاق میں سلسہ وار شائع ہوئیں اور بہت مقبول ہوئیں۔ پروفیسر قدوائی نے کہا کہ پروفیسر اطہر صدیقی کی کہانیوں میں گہری انسانی ہمدردی نظر آتی ہے۔ اسی طرح ان کے سفرنامے ذہن پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرتے ہیں۔ سائنسی حقائق انسانی تجربات میں کیسے آتے ہیں اس پر پروفیسر صدیقی کی گہری نظر تھی۔ ان کی خودنوشت میں ان کی اپنی تمنائی عظمتوں کا بیان نہیں، بلکہ انسانی رشتوں اور روابط کا گہرا نقش دکھائی دیتا ہے۔ پروفیسر صدیقی نے اردو ادب کو سائنس و ٹکنالوجی سے جوڑا۔ انھوں نے کتاب کے مرتبین کو مبارکباد پیش کی۔ کتاب کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ پروفیسر اطہر صدیقی سائنس کے طالب علم تھے مگر اردو زبان و ادب سے انھیں بڑا شغف تھا۔ یہ ان کی پرورش کا اثر تھا اور علی گڑھ کے ماحول نے اسے مزید تقویت بخشی تھی۔ ’ہم میں سے بیشتر ملازمت سے سبکدوشی کے بعد اپنے اور اپنے اہل و عیال کے دائرے میں سمٹتے چلے جاتے ہیں مگر چند ایسے اولوالعزم بھی ہیں جو دوسروں کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں، پروفیسر اطہر صدیقی انھیں میں سے ایک تھے‘۔اس موقع یونیورسٹی کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرس موجود رہے۔۔۔
---------------
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ