جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے فوری امداد کا کیا مطالبہنئی دہلی،06ستمبر(ہ س)۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے امریکی ٹیرف کے بھارتی برآمدات پر پڑنے والے منفی اثرات اور ملک بھر میں سیلاب و قدرتی آفات سے ہونے والی وسیع تباہی پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے جماعت کے ہیڈکوارٹر میں منعقد ہونے والی ماہانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے سامنے موجود سنگین اقتصادی اور انسانی چیلنجز کو اجاگر کیا اور حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔امریکی ٹیرف پر بات کرتے ہوئے سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ بھارتی برآمدات پر ٹیرف میں 50 فیصد تک کا اضافہ محنت پر مبنی شعبوں کو بری طرح مفلوج کر رہا ہے۔ سورت کی ہیروں کی کٹنگ یونٹس، اتر پردیش کے قالین مراکز اور ترو پور کے ملبوسات کی صنعت سے وابستہ مزدور روزگار کے سنگین خطرات سے دوچار ہیں۔ 2,500 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے قالین گوداموں میں پھنسے ہیں اور ہزاروں چھوٹے کاروبار بند ہو گئے ہیں۔صرف رواں مالی سال میں ہی 35,000 سے زیادہ ایم ایس ایم ای (MSMEs) بند ہو گئے۔ یہ صورت حال بحران کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے ٹیرف کو غیر منصفانہ اور پروٹیکشنسٹ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مضبوط سفارتی اور اقتصادی جواب دینے کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی 25,000 کروڑ روپے کے ریلیف پیکیج، قرضوں اور سبسڈی کے ذریعے تعاون اور ایم ایس ایم ای کی ملازمتوں کے تحفظ اور برآمدی منڈیوں کی تنوع کاری کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا۔ سیلاب پر گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ پنجاب، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور مہاراشٹر کی پوری بستیاں بہہ گئیں۔ کسانوں کی سینکڑوں کروڑ کی کھیتیاں تباہ ہوئیں، خاندان بے گھر ہو گئے اور بنیادی سہولتیں بیٹھ گئیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں پائی جانے والی بدعنوانیوں نے اس آفت کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔ سیلاب روکنے والے باندھ پہلے ہی امتحان میں ٹوٹ گئے۔ پانی نکاسی کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ ناقص معیار کی وجہ سے سڑکیں اور پل گر گئے۔ بدعنوانیوں نے قدرتی آفات کو ایک بڑے انسانی المیہ میں تبدیل کر دیا۔ سید سعادت اللہ حسینی نے کسانوں کو کم از کم فی ایکڑ 50,000 روپے کا منصفانہ معاوضہ دینے، سیلاب کی نکاسی اور فلڈ کنٹرول سسٹمز کی قومی سطح پر اپ گریڈیشن اور تمام انفراسٹرکچر پر سخت کوالٹی چیکس کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک بائنڈنگ ڈیزاسٹر ریلیف قانون بنایا جائے تاکہ غیر استعمال شدہ فنڈز کو بحالی اور طویل مدتی تعمیر نو کے لیے فوری استعمال کیا جا سکے۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں مسائل حکومت کی گہری ناکامیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشی انصاف اور شفاف حکمرانی اختیاری نہیں بلکہ ناگزیر ہیں۔مزدور اور کسان ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان کے مسائل کو نظر انداز کرنا لاکھوں لوگوں کو غربت کی جانب دھکیل دینے کے مترادف ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کا تحفظ خیرات نہیں بلکہ ان کا حق اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔اس پریس کانفرنس کو جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے آسام میں جاری انخلا مہم اور 2020 کے دہلی فسادات سازش کیس میں دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے ضمانت نہ دئے جانے کے فیصلے پر تشویش ظاہر کی۔آسام کے بارے میں پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ پچھلے تین مہینوں میں صرف گوالپاڑا میں ہی 1,700 سے زیادہ خاندانوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی کے پاس زمین کے درست کاغذات، این آر سی ریکارڈز اور ووٹر آئی ڈی تھے۔ اس کے باوجود ان کے مکانات، اسکول اور مسجدوں کو مسمار کر دیا گیا۔ شکور علی نام کا نوجوان اس وقت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا جب پولیس نے مقامی باشندوں پر فائرنگ کی۔پولیس کی یہ جارحیت ناقابل قبول ہے۔ بحالی کے بغیر انخلا آئین اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کی سخت خلاف ورزی ہے۔ کچھ معاملات میں تو عدالت کے اسٹے آرڈرز تک کو نظر انداز کر دیا گیا۔ بنگالی بولنے والی مسلم آبادی اور قبائلی گروہوں کو اس طرح نشانہ بنانا شدید ناانصافی ہے اور لسانی و فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینا ہے۔انہوں نے انخلا مہم کو فوری طور پر روکنے، پولیس فائرنگ کی آزادانہ انکوائری اور تمام بے گھر خاندانوں کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ پروفیسر سلیم انجینئر نے 2 ستمبر کے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے پر بھی تبصرہ کیا جس میں عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر کی ضمانت درخواست مسترد کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارکنان تقریباً پانچ سال سے بغیر مقدمہ کے جیل میں بند ہیں۔ دراصل یہ حکومت کی طرف سے دی جا رہی سزا ہے۔ قانون میں ضمانت اصول ہے، استثنا نہیں۔ عدالت نے محض بادی النظر مواد پر انحصار کیا اور واٹس ایپ گروپ کی رکنیت کو سازش کے طور پر لیا۔ یہ عمل طلبہ کارکنوں و سول سوسائٹی کے افراد کے خلاف یو اے پی اے کے غلط استعمال کے بارے میں سنگین خدشات پیدا کرتا ہے۔ یہ امتیازی رویہ عدلیہ پر اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے فیصلے جمہوری اختلاف اور اقلیتی آوازوں کو خاموش کرنے کا خطرہ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب فسادات کے اصل مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔ پروفیسر سلیم انجینئر نے امید ظاہر کی کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ مداخلت کرے گا، منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنائے گا اور جمہوری آزادیوں کا تحفظ کرے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارت کی جمہوریت مساوات، شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور غیر جانبدار عدالتی نظام پر منحصر ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais