ہنسنا ضروری ہے – نریند مودی کا مزاحیہ پہلو
سیاست میں مزاح ایک طاقتور قوت ہے—ایک فنکارانہ ہتھیار جو کشیدگی کو کم کر سکتا ہے، تعلق کو مضبوط بنا سکتا ہے اور سچائی کو اجاگر کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے مزاح محض آرائش نہیں، بلکہ ان کی قیادت کے انداز میں پرویا ہوا ایک جیتا جاگتا رنگین د
مودی


سیاست میں مزاح ایک طاقتور قوت ہے—ایک فنکارانہ ہتھیار جو کشیدگی کو کم کر سکتا ہے، تعلق کو مضبوط بنا سکتا ہے اور سچائی کو اجاگر کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے مزاح محض آرائش نہیں، بلکہ ان کی قیادت کے انداز میں پرویا ہوا ایک جیتا جاگتا رنگین دھاگا ہے۔

چاہے پارلیمنٹ میں شعری انداز اور پرمزاح لفاظی ہو، گجرات کی عوامی تقریبات میں طنزیہ جملے، یا عالمی سطح پر چمکدار مکالمے—ان کی بذلہ سنجی سیاسی گفتگو میں حرارت اور قربت کا تاثر پیدا کرتی ہے۔ ان کا ہلکا پھلکا انداز ہمیشہ نمایاں رہتا ہے، جیسے وہ یقین رکھتے ہوں کہ سچائی اگر مسکراہٹ کے ساتھ بیان کی جائے تو زیادہ گہرا اثر ڈالتی ہے۔ جو چیز مسرت بخش ہو وہ دیرپا رہتی ہے—اور مودی کے معاملے میں مزاح دلوں اور ذہنوں کے درمیان ایک پُل کا کام کرتا ہے۔

گجرات کے سال: طنز بطور تلوار اور ڈھال

جب مودی وزیر اعلیٰ بنے تو ان کے مزاح نے ایک تیکھا رنگ اختیار کر لیا۔ بھیڑ بھاڑ والے جلسوں میں طنز ایک طاقتور سیاسی ہتھیار میں ڈھل گیا۔ کانگریس کے رہنماؤں کے وعدے کارٹون جیسے لگتے، جنہیں بالی ووڈ کے مکالموں سے تشبیہ دی جاتی:

’’کانگریس کے نیتا ایسے وعدے کرتے ہیں جیسے شعلے کا گبر — ’ارے او سانبھا، کتنے ووٹ لائے؟‘‘

غریب کلیان میلوں میں، جہاں فلاحی اسکیمیں پیش کی جاتیں، وہ اپنے ناقدین کا یوں مذاق اڑاتے:

’’ان کو غریب کلیان میلہ پسند نہیں، شاید وہ غریب رلاؤ میلہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اور جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ مخالفین کے مسلسل حملوں سے کیسے بچ جاتے ہیں، تو ان کا جواب بالکل عوامی مزاح سے بھرا ہوا تھا:

’’میں روز 2–3 کلو گالی کھاتا ہوں، اس لیے مجھے کچھ ہوتا نہیں۔‘‘

یہ جملہ اتنا یادگار بنا کہ برسوں بعد وزیر اعظم بننے کے بعد بھی انہوں نے اسے دہرایا۔

ویڈیو: https://youtu.be/NrFb1Dhr6bI?feature=shared

اسمبلی میں مزاح نے ڈھال کا کام بھی کیا۔ جب اپوزیشن کے ایم ایل ایز نے ان پر آمرانہ طرزِ عمل کا الزام لگایا تو انہوں نے جھٹ سے جواب دیا:

’’شاید آپ کو یہ مسئلہ ہے کہ میں آپ کی طرح ’ہالی ڈے سی ایم‘ نہیں ہوں۔‘‘

طنز نے انہیں موقع دیا کہ وہ حملوں کا جواب بھی دیں اور مجمع کو محظوظ بھی رکھیں۔

وزیر اعظم: گھریلو مزاح سے عالمی مکالمے تک

وزیر اعظم بننے کے بعد مودی کی بذلہ سنجی کو ایک بڑا اسٹیج ملا۔ پارلیمنٹ جسے اکثر ٹکراؤ کا مرکز سمجھا جاتی ہے، کئی بار بذلہ سنجی اور مزاح کا میدان بن گیا۔ مثال کے طور پر راہل گاندھی کی 2018 کی آنکھ مارنے کی حرکت ایک مزاحیہ لمحے میں بدل گئی جب مودی نے اس کی نقل اتاری، اور ارکانِ پارلیمنٹ قہقہوں میں ڈوب گئے۔ ان کا یہ انداز ایسے مواقع پر کشیدگی کو کم کر دیتا ہے، مگر سنجیدگی کو کم کیے بغیر۔

ویڈیو: https://youtu.be/iAUbUZVt_Ws?feature=shared

پارلیمانی جملے اور سیاسی معرکے

مشہور ’’ٹیوب لائٹ‘‘ والا جواب

فروری 2020 کی لوک سبھا کی ایک بحث میں ایک یادگار جملہ سامنے آیا۔ راہل گاندھی نے کہا تھا کہ ”ہندوستان کا نوجوان چھ ماہ میں مودی کو لاٹھی سے مارے گا۔“ وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر کے دوران اس پر جو جواب دیا، وہ دیر تک یاد رکھا گیا۔

راہل گاندھی نے ایک ریلی میں کہا تھا: نریندر مودی جو آج تقریریں کر رہے ہیں، وہ چھ سات مہینے بعد گھر سے نکل نہیں سکیں گے، نوجوان انہیں لاٹھیوں سے ماریں گے۔

جب گاندھی نے تقریباً 30-40 منٹ بعد مودی کی تقریر میں مداخلت کی تو مودی نے طنزیہ انداز میں کہا:

’’میں 30-40 منٹ سے بول رہا ہوں، مگر کرنٹ پہنچنے میں اتنا وقت لگا۔ بہت سی ٹیوب لائٹس ایسی ہی ہوتی ہیں۔‘‘

یہ سنتے ہی بی جے پی کے ارکان ہنسنے لگے اور میزیں بجانے لگے۔

مودی نے مزید مذاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ راہل گاندھی کی دھمکی کے لیے تیاریاں کریں گے:

’’میں زیادہ سوریہ نمسکار کروں گا تاکہ میری کمر لاٹھی کھانے کے لیے تیار ہو جائے… میں خود کو گالی پروف بھی بناؤں گا اور لاٹھی پروف بھی۔ ایک طرح سے میں شکر گزار ہوں کہ مجھے ایڈوانس نوٹس دے دیا گیا۔‘‘

اسی طرح ایک بار مودی نے نے کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری کی بار بار مداخلت پر کہا کہ وہ’’پارلیمنٹ میں بار بار کھڑے ہو کر دراصل ’فٹ انڈیا‘ مہم کی تشہیر کر رہے ہیں۔‘‘

اسی طرح بے روزگاری کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے مودی نے کہا:

’’میں ملک کی بے روزگاری دور کر دوں گا، مگر ان کی بے روزگاری نہیں۔‘‘

ایک اور موقع پر انہوں نے نقادوں سے کہا: ’’اگر میں آپ کو ایک ایک سوال کا جواب دینے لگوں تو میں گوگل سرچ جیسا بن جاؤں گا۔‘‘ یہ جملہ سن کر سبھی پارٹیوں کے ایم پی قہقہوں میں ڈوب گئے۔

نوجوانوں سے شگفتہ مکالمے

طلبہ کے ساتھ ان کی ہنسی مذاق نے کئی بار عوامی ثقافت میں جگہ بنائی۔ ان کا اچانک پوچھا گیا جملہ: ”PUBG والا ہے کیا؟“ فوراً ہی ایک مقبول میم میں بدل گیا، جو اس بات کی جھلک ہے کہ وہ نوجوانوں کی زبان میں بات کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔

ویڈیو: https://www.youtube.com/watch?v=bArL0nZJqcw

بعد میں جب گیمرز سے انہوں نے ’’نووب‘‘ (Noob) کا مطلب سیکھا تو ہنستے ہوئے بولے: تو میں بھی نووب ہوں کیا؟ ایک عظیم رہنما لمحہ بھر کے لیے متعلق بن گیا۔

ویڈیو: https://www.youtube.com/shorts/HM3kYeluLT8

مزاحیہ سفارت کاری

عالمی سطح پر بھی مزاح ایک سفارتی ہتھیار بن گیا۔ مودی نے ایمانوئل میکرون کو ہنسی مذاق میں چھیڑتے ہوئے کہا: آج کل آپ ٹوئٹر پر ہی لڑائی کر رہے ہیں؟

ویڈیو: https://youtube.com/shorts/C9HOfWFt6qU?feature=shared

کریبیائی کرکٹرز کرس گیل اور ڈیرن سیمی کے ساتھ انہوں نے چھکے لگانے اور ڈانس کے اسٹائل پر خوشگوار نوک جھونک کی۔ ایسے لمحوں میں سفارت کاری اور خوش مزاجی ایک ساتھ سامنے آئیں۔

ویڈیو: https://www.youtube.com/shorts/EkkmnPTapB4

کشیدگی کو خوش مزاجی سے توڑنا

ایک بین الاقوامی تقریب کے دوران مترجم انگریزی اور ہندی کے بیچ الجھ گیا۔ ماحول کے بوجھل ہونے کے بجائے مودی فوراً مسکرائے اور کہا:

’’فکر نہ کریں، ہم زبانیں مکس کر سکتے ہیں۔‘‘

تخلیق کاروں اور عوام کے ساتھ

نیشنل کری ایٹرز ایوارڈز میں انہوں نے ہال کو چھیڑتے ہوئے کہا: ’’چلیے، موڈ تو ہر ایک کے بہت ہوتے ہیں بھائی۔‘‘

اور مزاحیہ انداز میں مائیک مانگتے ہوئے کہا: ’’مائیک دے دیجیے، کام آئے گا۔‘‘

ویڈیو: https://www.youtube.com/watch?v=Mk0YAvIOZU0

مزاح بطور تخفیف اسلحہ

ان کی سب سے تیز و تند تنقیدیں بھی اکثر مزاح میں سمٹ جاتی ہیں۔ 2014 کی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کانگریس کی گرتی حالت کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک مختصر جملہ کہا: 400 سے 40 ہو گئے۔

ویڈیو: https://www.youtube.com/shorts/vsEQLR7Sp_s

پاکستان پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’ان کے لیے جھنڈے پر چاند ہے، میرے لیے چاند پر جھنڈا ہے۔‘‘

ویڈیو: https://youtube.com/shorts/HOsMCG2fmL0?feature=shared

2017 میں ان کا ڈاکٹر منموہن سنگھ پر تبصرہ —’’وہ بارش میں بھی رین کوٹ پہن کر نہانے کا ہنر جانتے ہیں‘‘ — زبردست ہنگامہ کھڑا کر گیا۔

لطیفوں سے بھارت کی نئی پہچان

جب وہ عالمی سامعین سے خطاب کرتے ہیں تو اکثر مزاح کو بھارت کی ترقی کی یادگار بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

مدیسن اسکوائر گارڈن (2014) میں انہوں نے پرانے تصورات کو ایک جملے سے الٹ دیا:

’’ہمارے باپ دادا سانپوں کے ساتھ کھیلتے تھے؛ آج ہمارے لوگ ماؤس کے ساتھ کھیلتے ہیں۔‘‘

یہ سن کر ہال تالیوں اور شور سے گونج اٹھا۔ وہ بھارت جو کبھی صوفیوں کی سرزمین کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اب آئی ٹی کی طاقت کے مرکز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

اسی امریکی دورے میں، جب بھارت کے مریخ مشن کا ذکر آیا، تو انہوں نے روزمرہ آٹو رکشہ کے کرایوں سے موازنہ کر کے کہا:

’’احمد آباد میں آپ ایک کلومیٹر کے لیے 10 روپے دیتے ہیں، ہم نے 65 کروڑ کلومیٹر مریخ تک کا سفر صرف 7 روپے فی کلومیٹر میں کیا۔‘‘

مجموعی طور پر مودی کا مزاح ایسے ثقافتی حوالوں میں جڑا ہے جو عام لوگوں کے لیے فوراً قابلِ شناخت ہوتے ہیں — کرکٹ، سنیما، کہاوتیں، اور اب آن لائن گیمنگ کی زبان بھی۔ یہی نقطے ان کے لطیفوں کو نسل در نسل مقبول بناتے ہیں۔

ساتھ ہی مزاح کشیدگی کم کرنے کا ہنر ہے، جو سیاسی مکالمے میں سختی کو نرم کرتا ہے مگر ان کی مضبوطی کو کم نہیں کرتا۔ لمبی تقاریر اکثر ایک جملے میں سمٹ جاتی ہیں جو ہیڈلائن، میم اور واٹس ایپ فارورڈ میں زندہ رہتی ہیں۔

سب سے بڑھ کر، ان کا مزاح ان کی قیادت کو انسان دوست بناتا ہے۔ جب وہ روزانہ ”2 سے 3 کلو گالی کھانے“ کا مذاق کرتے ہیں یا خود کو ’’نووب‘‘ کہتے ہیں تو وہ اعلیٰ عہدے اور عام آدمی کے بیچ کا فاصلہ کم کرتے ہیں — یہ دکھاتے ہوئے کہ طاقت کے بوجھ کے باوجود وہ خود پر ہنسنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سیاست میں ہنسی کم ملتی ہے، مگر جب آتی ہے تو وہ کسی تقریر سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی بار دکھایا ہے کہ تیز و شگفتہ مزاح مخالفین کو بے اثر، دلوں کو فتح اور سچائی کو غیر متوقع طریقے سے پیش کر سکتا ہے۔ ان کے مختصر جملے، ہلکی چھیڑ چھاڑ اور شگفتہ لمحے یاد دلاتے ہیں کہ سیاست کی گرمی میں بھی — ہنسنا ضروری ہے۔

Hasna Zaroori Hai – Narendra Modi’s Lighter Side

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande