وقف ترمیمی ایکٹ کی تین متنازعہ دفعات پر سپریم کورٹ کی عبوری روک
کلکٹرکو کوئی اختیارنہیں، سینٹرل وقف کونسل اورریاستی وقف بورڈمیں غیرمسلم ممبروں کی تقرری کی حدمقرر،جمعیةعلماءہند اس سیاہ قانون کے خاتمہ تک اپنی قانونی جدوجہد جاری رکھے گی:مولانا ارشدمدنینئی دہلی، 15ستمبر(ہ س)۔وقف قانون میں ترمیم کرکے متنازعہ اوربڑی حد
وقف ترمیمی ایکٹ کی تین متنازعہ دفعات پر سپریم کورٹ کی عبوری روک


کلکٹرکو کوئی اختیارنہیں، سینٹرل وقف کونسل اورریاستی وقف بورڈمیں غیرمسلم ممبروں کی تقرری کی حدمقرر،جمعیةعلماءہند اس سیاہ قانون کے خاتمہ تک اپنی قانونی جدوجہد جاری رکھے گی:مولانا ارشدمدنینئی دہلی، 15ستمبر(ہ س)۔وقف قانون میں ترمیم کرکے متنازعہ اوربڑی حدتک خطرناک دفعات کے ساتھ جو نیاوقف ترمیمی ایکٹ 2025لایاگیا سپریم کورٹ نے آج اپنے اہم فیصلہ میں ان میں سے ان تین متنازعہ دفعات پر عبوری روک لگادی، قابل ذکر ہے کہ 22مئی کو اس معاملہ پر تفصیلی سماعت کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، چیف جسٹس بی آرگوئی کی سربراہی والی دورکنی بینچ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ کلی طورپر قانون کو ردکرنے کی کوئی بنیادنہیں تاہم نئے قانون کی بعض دفعات ایسی ہیں جن کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے، نئے قانون میں کہا گیا تھا کہ وہی شخص وقف کرسکتاہے جو پچھلے پانچ برس سے اسلام پر عمل پیراں ہو،عدالت نے اس پر روک لگادی اورکہا کہ جب تک ریاستی حکومتیں اس سلسلہ میں کوئی طریقہ کاروضع نہیں کرتیں اس التزام پر عمل نہیں کیاجاسکتا، نئے قانون میں تمام تراختیارات ضلع کلکٹرکو دیدیئے گئے تھے یعنی کسی وقف جائیدادپر تنازع اٹھنے کی صورت میں کلکٹرکو اس بات کا مکمل اختیاردیا گیاتھا کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا متنازعہ جائیداد وقف ہے یا نہیں عدالت نے اس پر بھی پابندی لگادی اورکہا کہ جب تک ٹربیونل یا عدالت سے کوئی فیصلہ نہیں ہوتامتنازع وقف آراضی میں کوئی چھیڑچھاڑنہیں ہوگی، عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب تک تنازع حل نہیں ہوجاتاکوئی فریق کسی تیسرے فریق کو اختیارات منتقل نہیں کرسکتا، عدالت نے صاف لفظوں میں کہا کہ کمشنرکو یہ اختیارنہیں دیا جاسکتاکہ وہ کسی جائیدادکا مالکانہ حق طے کرے، عدالت نے واضح طورپر کہا کہ سینٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم ممبران کی تعداد چارسے زیادہ نہ ہواور ریاستی وقف بورڈوں میں تین سے زیادہ غیر مسلم ممبرنہیں ہوں گے، عدالت نے ریاستی وقف بورڈوں میں غیر مسلم سی ای او کی تقرری پر روک تونہیں لگائی ہے تاہم اس بات پر اصرارکیا ہے کہ جہاں تک ہوسکے مسلم سی ای او کی تقرری کی جانی چاہئے، عدالت نے رجسٹریشن کی شرائط میں بھی مداخلت نہیں کی اورکہا کہ وقف املاک کا رجسٹریشن پہلے بھی ہوتارہاہے، عدالت میں یہ فیصلہ چیف جسٹس بی آرگوئی نے خودپڑھا انہوں نے کہا کہ غیر معمولی صورتحال میں ہی عدالت کسی قانون پر اسٹے دے سکتی ہے، یا اسے ردکرسکتی ہے، انہوں نے کہا کہ عرضی گزاروں کی طرف سے مکمل قانون کو چیلنج کیا گیا تھا جن میں بعض دفعات کو لیکر یہ چیلنج بہت اہم تھا، عدالت میں مرکزی حکومت نے اس بات پر اپنی رضامندی کا اظہارکیا کہ وقف بائی یورزسمیت کسی بھی وقف املاک کو جس کا اعلان نوٹیفکیشن کے ذریعہ کیا گیا ہویا پھر رجسٹریشن کے ذریعہ ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا، اورنہ ہی اس کی حیثیت یا صورتحال میں کوئی تبدیلی لائی جائے گی، جمعیةعلماءہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے عدالت کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا اوراس بات کے لئے اس کا شکریہ بھی اداکیا کہ نئے قانون کی جن دفعات کو لیکر ملک بھرکے مسلمانوں کی طرف سے تحفظات، تشویش اورسخت خدشات کا اظہارہورہاتھا عدالت نے اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اوران میں سے تین دفعات پر عبوری روک لگادی،مولانا مدنی نے کہا کہ ابھی ہماری لڑائی ختم نہیں ہوئی ہے،جمعیة علماءہند اس سیاہ قانون کے ختم ہونے تک اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی یہ نیا وقف قانون ملک کے آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف یکساں حقوق فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی دیتا ہے یہ قانون مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین لینے کی دستور کے خلاف ایک خطرناک سازش ہے اس لئے جمعیة علماءہند نے وقف قانون 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس سیاہ قانون کو ختم کر کے ہمیں مکمل دستوری انصاف دے گا انشاءاللہ، مولانا مدنی نے اخیرمیں اپنے وکلاء اور خاص طورپر سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کا شکریہ اداکیا اور کہا کہ ہمارے وکلاءنے مدلل بحث کرکے عدالت کو قائل کیا کہ وقف قانون میں کی گئی ترمیمات نہ صرف وقف املاک کے لئے خطرناک ہے بلکہ یہ غیر آئینی ہے اورایسا کرکے مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر گہری ضرب لگائی گئی ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande