سچن بدھولیانئی دہلی، 2 0اگست (ہ س)
پاکستان سے بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کرنے والی بلوچستان مکتی آندولن (بلوچستان آزادی تحریک) نے آزادی کے بعد ایک آزاد ملک کی شکل، طرز حکمرانی اور سماجی نظام کے بارے میں مکمل منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ اس تحریک نے عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان کے وسائل میں شراکت کے لیے پاکستان کا راستہ اختیار نہ کریں۔
بلوچ صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، اور فری بلوچستان موومنٹ سے وابستہ سیاسی کارکن میر یار بلوچ نامعلوم مقام سے ہندوستھان سماچار کے ساتھ ٹیلی فون پر خصوصی گفتگو کی ہے اور آزاد بلوچستان کے منشور اور آئینی خاکہ کو بھی شیئر کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان ایک سیکولر ملک ہوگا جہاں مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہوگا اور ہر شہری کو اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب یا عقیدے پر عمل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ تمام شہریوں کو برابر حقوق حاصل ہوں گے۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ملک کا نظام حکومت جمہوری ہوگا اور بلوچستان کی قومی فوج کا کام صرف ملکی سرحدوں کا دفاع کرنا ہوگا۔ فوج میں خدمات انجام دینے والے کسی بھی افسر یا سپاہی کو کسی کاروباری سرگرمی میں حصہ لینا ممنوع ہوگا۔بلوچستان کا خواب اب دور نہیں مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ (میمری) میں بلوچستان اسٹڈیز پراجیکٹ کے مشیر میر یار بلوچ کے مطابق بلوچستان کا خواب اب حقیقت سے زیادہ دور نہیں۔ بلوچستان لبرریشن چارٹر میں جس آزاد بلوچستان کا نقشہ پیش کیا گیا ہے، اس میں ایران کا آدھا اور افغانستان کا کچھ جنوبی حصہ بھی شامل ہے۔اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایران میں بھی بلوچستان کے حقوق کے لئے آوازیں اٹھتی رہی ہیں اور وہاں نا انصافی کے خلاف مولوی عبدالحمید کی قیادت میں زاہدان میں بلوچ پر امن طریقے سے جدوجہد کررہے۔ ان کے مطابق ایرانی بلوچوں میں اب مذہب سے زیادہ قوم پرستی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ایران کی کل آبادی کا 50 فیصد غیر فارسی نسل سے تعلق رکھتا ہے، جن میں کرد، الاحواز، لور، ترکمان اور آذری شامل ہیں، جو علی خامنہ ای کی قیادت کے مخالف ہیں۔میر یار بلوچ نے کہا کہ ایرانی بلوچستان کا علاقہ بندر عباس اور ہرمز کی خلیج تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر یہ علاقہ ایران سے آزاد کرا لیا جائے تو چین کے لیے خلیج فارس سے تیل کی رسد بند ہو سکتی ہے۔انہوں نے ایک منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران میں خامنہ ای کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بلوچوں، کردوں، الاحواز، لور، ترکمان اور آذری قوموں کو ان کے علاقوں کا اقتدار دے دیا جائے تو ایران میں خانہ جنگی کا خطرہ ختم ہو جائے گا اور غیر فارس اقوام اپنے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے اہل ہوں گے۔ایرانی بلوچستان کے اہم شہر زاہدان، بام، جیرفت، ایران شہر، میناب اور چابہار ہیں، جہاں بھارت بندرگاہ اور دیگر ترقیاتی منصوبے چلا رہا ہے۔
افغانستان اور بلوچستان کے متنازع علاقے
افغانستان کے ساتھ متنازع علاقوں پر گفتگو کرتے ہوئے میر یار بلوچ نے بتایا کہ جنوبی افغانستان کے صوبے ہلمند، نیمروز، فراح اور قندھار کے جنوبی صحرائی علاقے بلوچ اکثریتی ہیں، جبکہ بلوچستان کے چمن، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، اور ڑوب پشتون اکثریتی علاقے ہیں۔ ان کے مطابق ماضی کےافغان حکمران کے بات چیت ہوتی رہی ہے طالبان حکام کے ساتھ بھی سفارتی بات چیت کے دروازے کھلے ہیں کہ یہ علاقے باہمی طور پر تبدیل کیے جائیں گے، کیونکہ بلوچ اور پشتون دونوں ہی انگریزوں کی بنائی ہوئی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے۔
پاکستان کے اندر بلوچستان کی حدود
انہوں نے بتایا کہ عام طور پر بلوچستان کو پاکستان کے 44 فیصد رقبے پر مشتمل سمجھا جاتا ہے، لیکن ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور تونسہ جیسے پنجاب کے اضلاع بلوچ اکثریتی ہیں، اور ہم انہیں بلوچستان کا حصہ مانتے ہیں۔ سندھ میں کراچی کا مائی کلاچی اور لیاری بھی بلوچ اکثریتی ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان کے تقریباً 64 فیصد رقبے پر بلوچوں کی اکثریت ہے۔بلوچستان پر چین کا اثر و رسوخ
بلوچ بغاوت کے بعد پاکستانی حکومت بلوچستان میں تقریباً غیر مؤثر ہو چکی ہے۔ چین کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ کراچی سے گوادر تک سائن بورڈ اردو اور چینی زبان میں ہیں۔ چینی انٹیلیجنس ایجنسیاں پاکستانی ایجنسیوں کو سامنے رکھ کر حکومت چلا رہی ہیں۔
چین کی دلچسپی گوادر بندرگاہ سے تیل کی ترسیل اور بلوچستان کے معدنی ذخائر سے جڑی ہے۔ بلوچستان کو میوزیم آف منرلز کہا جاتا ہے۔ یہاں تیل، گیس، 60 لاکھ ٹن سونا، اور بڑی مقدار میں لیتھیم، یورینیم، تانبا، میگنیشیم اور دیگر قیمتی معدنیات موجود ہیں۔ بلوچستان سے روزانہ 33.4 کروڑ کیوبک فٹ گیس نکالی جاتی ہے، جس سے پاکستان کو 42 ارب روپے کی آمدنی ہو رہی ہے۔
بلوچستان آزادی تحریک کی موجودہ صورتحال
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بلوچستان کے بڑے حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ پاکستانی فوج کا حوصلہ ٹوٹ چکا ہے اور فوجی اور لیوی افسران بی ایل اے کے رحم و کرم پر ہیں۔ اب تک 800 فوجی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ میں بلوچوں کا غلبہ ہے، اور وہ خاموشی سے تحریک کے ساتھ ہیں۔ بی ایل اے صرف ان افراد کو نشانہ بناتی ہے جو بلوچ دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
ہندوؤں اور اقلیتوں کے بارے میں موقف
بلوچستان صدیوں سے ہنگلاج ماتا کا مقام رہا ہے۔ بلوچ خود کو ہنگلاج ماتا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ہم نانی مندر (ہنگلاج ماتا) کے محافظ ہیں۔ وہاں کسی کا مذہب یا ذات نہیں پوچھی جاتی۔ ہم ہندوؤں کے محافظ ہیں، اگر کسی ہندو کو نقصان پہنچے تو ہم اس کا دوگنا بدلہ لیتے ہیں۔ BLA نے صاف کہا ہے کہ جو بھی ہندو کو نشانہ بنائے گا، وہ بلوچوں کا دشمن ہوگا۔ بلوچستان میں 50 سے زائد مندروں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔
بھارت اور عالمی حمایت
میر یار بلوچ نے کہا کہ بلوچوں کو بھارت سمیت کسی بھی بیرونی ملک کی حمایت حاصل نہیں، یہ ساری جدوجہد بلوچ اپنی طاقت پر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، اگر ایک خودمختار بلوچستان وجود میں آتا ہے تو چین کا خلیج فارس یا بحیرہ عرب سے رابطہ ختم ہو جائے گا اور اسرائیل کو بھی سکون ملے گا۔ پاکستان کی آمدنی کے ذرائع بھی ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تیل اور معدنیات کے معاہدوں پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ذخائر بلوچستان کے ہیں، نہ کہ پاکستان کے۔ ایسا معاہدہ امریکہ کی بڑی اسٹریٹجک غلطی ہوگی کیونکہ اس سے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو عالمی دہشت گردی کے لیے مالی طاقت حاصل ہوگی۔انہوں نے امریکی صدر کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی ان وسائل کا استعمال بھارت مخالف اور اسرائیل مخالف دہشت گرد گروہوں کو تقویت دینے میں کرے گی، جس سے خطہ اور دنیا غیر مستحکم ہو جائے گی۔اخیر میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ بلوچستان فروخت کے لیے نہیں ہے۔ ہم بلوچوں کی واضح اجازت کے بغیر پاکستان، چین یا کسی بھی غیر ملکی طاقت کو اپنے وسائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہماری خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ہم دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری آزادی اور اپنی سرزمین و قدرتی وسائل پر اختیار کی خواہش کو تسلیم کریں۔
ہندوستان سماچار / عطاءاللہ