کرنل صوفیہ قریشی پراہانت آمیز تبصرے کا معاملہ: مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ پر آج سپریم کورٹ میں اہم سماعت
بھوپال، 18 اگست (ہ س)۔ سپریم کورٹ آج مدھیہ پردیش کے قبائلی امور کے وزیر کنور وجے شاہ کے متنازعہ بیان معاملے کی سماعت کرے گا۔ اس دوران خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) عدالت کے سامنے اپنی اسٹیٹس رپورٹ پیش کرے گی، جب کہ وزیر کے وکیل عدالت کو یہ باور کرا
کرنل صوفیہ قریشی پراہانت آمیز تبصرے کا معاملہ


بھوپال، 18 اگست (ہ س)۔ سپریم کورٹ آج مدھیہ پردیش کے قبائلی امور کے وزیر کنور وجے شاہ کے متنازعہ بیان معاملے کی سماعت کرے گا۔ اس دوران خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) عدالت کے سامنے اپنی اسٹیٹس رپورٹ پیش کرے گی، جب کہ وزیر کے وکیل عدالت کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ شاہ کی جانب سے پیش کردہ معافی دراصل ندامت اور خود شناسی کی علامت ہے۔ تاہم، پچھلی سماعت میں، عدالت عظمیٰ نے ان کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے اسے غیر مخلصانہ اور عوامی جذبات کو نظر انداز کرنا قرار دیا تھا۔

یہ سارا تنازعہ 11 مئی کو اس وقت شروع ہوا جب وجے شاہ نے اندور ضلع کے مہو علاقے کے گاؤں رائکنڈا میں منعقدہ ایک پروگرام کے دوران آپریشن سندور کا ذکر کرتے ہوئے کرنل صوفیہ قریشی پر تبصرہ کیا۔ شاہ کے اس بیان نے نہ صرف سیاسی حلقوں میں ہنگامہ برپا کیا بلکہ فوج اور معاشرے کے مختلف طبقات نے بھی اسے قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ الزام لگایا گیا کہ اس بیان سے فوج کی ایک خاتون افسر کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ 28 جولائی کو جسٹس سوریا کانت اور جسٹس جویمالیا باغچی کی دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے وجے شاہ کی جانب سے جاری کیے گئے معافی مانگنے والے ویڈیو کا نوٹس لیا، لیکن عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر نے یہ بھی تسلیم نہیں کیا کہ ان کے بیان سے عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ جسٹس سوریا کانت نے سخت ریمارک کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو خود کا جائزہ لینا چاہیے کہ آپ اپنی سزا کس طرح برداشت کریں گے۔ آپ کی یہ عوامی معافی کہاں ہے؟ آپ ہمارے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ اس دوران وجے شاہ کی جانب سے سینئر وکیل کے پرمیشورا نے عدالت کو بتایا کہ وزیر نے سابقہ حکم کی تعمیل کی ہے اور ان کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا ہے۔ جب عدالت نے پوچھا کہ یہ بیان کس بارے میں ہے تو انہوں نے کہا کہ معافی کے حوالے سے۔ اس پر جسٹس سوریا کانت نے دو ٹوک کہا کہ اگر معافی مانگی گئی ہے تو حقیقت میں عوام تک کیوں نہیں پہنچی؟ آن لائن پوسٹ کی گئی معافی کی کیا اہمیت ہے جب یہ ایمانداری اور عوامی جذبات کی قبولیت کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح کی رسمی کارروائی سے نیتوں پر شکوک ہی بڑھتے ہیں۔

اس پورے تنازعہ میں کانگریس لیڈر ڈاکٹر جیا ٹھاکر نے 23 جولائی کو سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی جس میں وجے شاہ کو وزیر کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن 28 جولائی کو ہوئی سماعت میں عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اس طرح کی درخواستیں سپریم کورٹ میں قابل قبول نہیں ہیں۔ ہاں، عدالت نے ہدایت دی کہ ایس آئی ٹی درخواست میں دیے گئے حقائق اور الزامات پر غور کرے اور انہیں اپنی رپورٹ میں شامل کرے۔ اس طرح جیا ٹھاکر کی عرضی کو مسترد کر دیا گیا لیکن ان کے نکات کو تحقیقات کا حصہ بنایا گیا۔

معاملہ صرف عدالت تک محدود نہیں رہا۔ سیاسی نقطہ نظر سے بھی یہ واقعہ مدھیہ پردیش میں بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اپوزیشن کانگریس وزیر شاہ کے استعفیٰ کے مطالبے پر مسلسل اٹل ہے جبکہ حکمراں بی جے پی اس پورے واقعہ کو اپوزیشن کی سازش قرار دے رہی ہے۔

ہندوستھان سماچار

---------------

ہندوستان سماچار / عبدالواحد


 rajesh pande