تل ابیب،06جولائی(ہ س)۔ایک جانب اسرائیل اتوار کے روز دوحہ میں جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر بات چیت کے لیے وفد بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے غزہ میں جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔بن گویر نے کہا کہ اس جنگ کا بنیادی مقصد حماس کا مکمل خاتمہ ہے۔ ان کے بقول اس مرحلے پر کسی بھی جزوی معاہدے کا مطلب دہشت گردی کو انعام دینا ہوگا، جو اسرائیل کے اصل ہدف کو نقصان پہنچائے گا۔انہوں نے مزید کہاکہ غزہ کو مستقبل میں غیر مسلح کرنے کے وعدے، جزوی معاہدے، جن میں اسرائیلی فوج کا کنٹرول والے علاقوں سے انخلا، سینکڑوں قاتل دہشت گردوں کی رہائی اور بڑی مقدار میں انسانی امداد کی ترسیل شامل ہے، ہمارے اصل مقصد سے ہمیں دور لے جا رہے ہیں اور حماس کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع دے رہے ہیں۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ واحد راستہ جس سے قیدیوں کی بحفاظت واپسی اور اس مسئلے کا مستقل حل ممکن ہے، وہ غزہ پر مکمل قبضہ، نام نہاد 'انسانی امداد' کی فراہمی کا خاتمہ اور ہجرت کی حوصلہ افزائی ہے۔بن گویر نے وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاھو سے اپیل کی کہ وہ ان کے، ہتھیار ڈالنے والے منصوبے سے دستبردار ہو جائیں اور ایک فیصلہ کن حکمت عملی اختیار کریں جو مکمل کامیابی کی طرف لے جائے۔یاد رہے کہ مجوزہ معاہدے میں دو ماہ کے لیے جنگ بندی، قیدی اور قیدیوں کا تبادلہ اور اسرائیل و حماس کے درمیان لاشوں کی حوالگی شامل ہے۔
معاہدے کے نئے مسودے میں حماس کی طرف سے دی گئی تجاویز کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ فریقین کی آراءکو مد نظر رکھتے ہوئے حتمی شکل دی جا سکے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے دباو¿ ڈال رہے ہیں تاکہ وہ پیر کے روز واشنگٹن میں وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاھو سے اپنی ملاقات سے قبل اس پیش رفت کا اعلان کر سکیں۔ادھر حماس نے اپنے سرکاری بیان میں تصدیق کی ہے کہ اس نے مجوزہ جنگ بندی معاہدے پر اپنا ردعمل ثالثوں کے ذریعے پہنچا دیا ہے اور وہ معاہدے پر فوری بات چیت کے لیے سنجیدہ اور تیار ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan