اے ایم یو کے کچھ افسران پر چل رہی سنٹرل ویجیلنس کمیشن کی جانچ،اے ایم یو جلد دیگا رپورٹ
علی گڑھ, 31 جولائی (ہ س) ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مختلف عہدیداروں پر لگے بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات جاری ہے جن میں او ایس ڈی وائس چانسلر، ڈپٹی پروکٹر اور رکن ایگزکیٹو کونسل کے نام شامل ہیں وہیں اے ایم یو کے شعبہ تاریخ کے استاد پروفیسر
باب سید


علی گڑھ, 31 جولائی (ہ س) ۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مختلف عہدیداروں پر لگے بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات جاری ہے جن میں او ایس ڈی وائس چانسلر، ڈپٹی پروکٹر اور رکن ایگزکیٹو کونسل کے نام شامل ہیں وہیں اے ایم یو کے شعبہ تاریخ کے استاد پروفیسر محمد سجاد نے بھی حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ کو خط لکھ کرڈائریکٹوریٹ آف اسکول کے ڈائریکٹر پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں اور کچھ نکات سے بھی واقف کرایا ہے۔

پروفیسر سجاد کا کہنا ہے کہ اے ایم یو اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی کا عمل عنقریب ہونا ہے اور اسکول ڈائریکٹر گزشتہ10 سالوں سے زائد عرصہ سے ڈائریکٹوریٹ کے مختلف عہدوں پر فائز ہیں، اس لیے ان کی موجودگی میں یہ بھرتی غیر جانبدارانہ نہیں ہوسکتی،وہیں اے ایم یو ایگزیکٹو کونسل کے ذریعہ قواعد میں کی گئی تبدیلیاں بھی حکومتی رہنما ہدایات کے خلاف ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ان دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس میں کچھ افسران پر ویجیلنس کی جانچ سرخیوں میں ہے ایسے میں یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر محمد سجاد نے بھی ہورہی بے ضابطگیوں کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے حکومت ہند اور اے ایم یوانتظامیہ سے خط وکتابت کی ہے۔اس تعلق سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پروفیسر محمد سجاد نے بتایا کہ اسکولوں میں ایسے اساتذہ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں جو اہلیت کے معیار کو پورا نہیں کر رہے ہیں جیسے کہ کچھ کے پاس B.Ed نہیں ہے اور کچھ کے پاس STET، CTET نہیں ہے۔یہ وہ اساتذہ ہیں جن کو عارضی بنیادوں پر تعینات کیا ہے ان میں بہت سے اساتذہ ایسے ہیں جن کے پاس یہ اہلیت نہیں ہے اب ایسے امیدواروں کو مستقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ ڈائریکٹر کو ہٹا کر نیا ڈائریکٹر مقرر کیا جاناچاہے اور تب بھرتی کا عمل شروع کریں۔پروفیسر محمد سجاد نے حکومت سے اپیل ہے کہ اگر حکومت چاہے تو گزشتہ 13 سالوں میں ڈائریکٹر یا اور انکے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رہتے ہوئے کی گئی تقرریوں کی تحقیقات کرے کہ ان میں پیسوں کا لین دین تو نہیں کیا گیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اسکول میں اساتذہ کی مستقل تقرری کے تعلق سے کی جارہی ڈائریکٹریٹ کی ان کوششوں میں اے ایم یو ایگزکیٹو کونسل بھی شریک ہے جس نے تحریری امتحان کو 70 نمبر سے کم کرکے 30 نمبر کا کردیا ہے اور انٹرویو کو 30 نمبر سے 70 کردیا ہے۔انھوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ کیندریہ ودیالیہ سنگٹھن کی طرز پر ایگزیکٹو کونسل کو ہدایت دیں کہ وہ مذکورہ تبدیلی کو فوری طور پر منسوخ کریں۔

سنٹرل ویجیلنس کمیشن کی جانچ کے حوالہ سے پروفیسر محمد سجاد نے کہا کہ جو خط وائرل ہوا ہے اس کے مطابق یہ جانچ دسمبر 2024 کی معلوم چلتی ہے جس میں اے ایم یو کے ویجیلنس آفیسر سے رپورٹ طلب کی گئی ہے لیکن ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ سی وی سی اب اس معاملے کو براہ راست اپنے ہاتھ میں لے اور خود اس کی تحقیقات کرے۔انھوں نے بتایا کہ سی وی سی میں ان پر اسسٹنٹ پروفیسر سے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر سے پروفیسر بننے کے لیے اپنے اے پی آئی اسکور کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام ہے۔ وہیں پرانی پنشن ا سکیم کی مراعات لینے کا بھی الزام لگا ہے۔انھوں نے بتایا کہ آر ٹی ای کے آئینی اور بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اے ایم یو اسکولوں میں اسکول ڈیولپمنٹ فنڈ کے نام پر طلباء سے رقم لی جاتی ہے اور اس رقم کوریوالونگ فنڈ میں ڈالا جاتا ہے اور اس رقم کو کئی طریقوں سے استعمال کیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے ڈائریکٹوریٹ پر دیگر متعدد الزامات عائد کئے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

سنٹرل ویجیلنس کمیشن کی جانچ کے حوالہ سے جب اے ایم یو کے ویجیلنس آفیسر پروفیسر رفیع الدین سے بات کی گئی توا نھوں نے جانچ کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات جاری ہے، یہ ایک طویل عمل ہے اور جلد ہی مکمل کیا جائے گا اور رپورٹ بھیج دی جائے گی،انھوں نے کہا کہ ویجیلنس کا معاملہ ہے تو ہر پہلو دیکھا جارہا ہے اس کے بعد رپورٹ بھیج دی جائے گی۔

غورطلب ہے کہ راشٹریہ سہارا اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 10۔ 10 سالوں سے زائد عرصہ سے عہدوں پر فائز افسران کے تعلق سے خبر پہلے بھی شائع کرچکا ہے جس پر لوگوں نے اعتراضات ظاہر کئے تھے لیکن اے ایم یو کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے ابھی تک اس ضمن میں کوئی توجہ نہیں دی ہے، اب ایک مرتبہ پھر انہی مسائل کو لیکر اے ایم یو سرخیوں میں ہے۔

---------------

ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ


 rajesh pande