نئی دہلی، 30 جولائی (ہ س)۔ وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے بدھ کو ’آپریشن سندور‘ پر راجیہ سبھا میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان اور چین کے فوجی اتحاد پر اپوزیشن کے الزامات کا جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان گٹھ جوڑ کی وجہ ہمارا پاک مقبوضہ کشمیر کی سرزمین چھوڑنا تھا۔ جے شنکر نے اپوزیشن لیڈر کے اس بیان کا مذاق اڑایا کہ اپوزیشن کے لیڈر کا یہ کہنا کہ گٹھ جوڑ اچانک ہوگیا ہے اور وہ وارننگ دے رہے ہیں۔اس سے لگتا ہے وہ تاریخ کی کلاس میں سو رہے تھے۔
وزیر خارجہ نے راجیہ سبھا میں کہا کہ اپوزیشن ان سے سوال کر رہی ہے۔ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ 41 سال سے فارن سروس میں ہیں اور سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے سفیر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ گزشتہ 20 برسوں میں چین کے ساتھ ہماری حکمت عملی میں سب سے زیادہ نقصان سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ ہے اور کانگریس کی قیادت والی حکومت نے کہا تھا کہ یہ ہمارے لیے تشویش کی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا،”چائنا گرو موجود ہیں، ان میں سے ایک میرے سامنے بیٹھے ممبر (جے رام رمیش) ہیں، جن کاچین کے تئیں اتنا گہرا لگاو ہے کہ انہوں نے ایک جوڑ بنا لیا تھا’بھارت اور چین کی چینیا‘۔... انہوں نے کہا کہ ’چائنا گرو‘ کہتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے درمیان گہرے تعلقات ہیں، ہمیں اس کی معلومات ہے اور ہم اس سے نمٹ رہے ہیں، لیکن یہ کہنا کہ یہ اچانک تیار ہوا، اس کا مطلب ہے کہ وہ تاریخ کی کلاس کے دوران سو رہے تھے۔ “
کانگریس لیڈر پی چدمبرم کے ذریعہ ان کے دورہ چین پر سوالات اٹھائے جانے پر وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کی کوئی خفیہ ملاقات نہیں تھی۔ انہوں نے چین کے ساتھ دہشت گردی ، تجارتی پابندیوں اور کشیدگی کو کم کرنے پر بات چیت کی اور ہم نے چین پر واضح کیا ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام سے جڑا ہوا ہے۔
وزیر خارجہ نے ایوان میں پاکستان کے حوالے سے امریکہ کے موقف کی بھی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور بھارت کی پاکستان کے حوالے سے مختلف قومی پالیسیاں ہیں۔ دونوں کی پالیسیوں میں یہ فرق پہلی بار نہیں ہے۔ ہماری قومی پالیسی واضح ہے کہ ہمارے پاکستان کے ساتھ باہمی مذاکرات ہی ہوں گے اور دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم بہت سے معاملات پر امریکہ سے براہ راست بات کر رہے ہیں۔ اس میں تجارتی معاہدہ بھی شامل ہے۔
اس دوران وزیر خارجہ نے ٹرمپ کے بیانات پر صورتحال بھی واضح کی اور اپوزیشن سے کہا کہ وہ’کان کھول کر سن لیں‘۔ اپریل اور 16 جون کے درمیان وزیر اعظم مودی اور امریکی صدر کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
آپریشن سندور کی کامیابی پر وزیر خارجہ نے اپوزیشن سے کہا کہ انہیں پاکستان میں دہشت گردوں کے اٹھتے جنازوں اور پاکستان کی ایئربس کو ہوئے نقصان کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھنی چاہیے۔ بہاولپور اور مریدکے دہشت گردی کے عالمی مراکز تھے اور آج ہم نے انہیں تباہ کر دیا ہے اور یہ پاکستان کے وزیراعظم کے بیانات میں بھی واضح نظر آتا ہے۔
وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں سابق وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے دور میں ہونے والی تاریخی غلطیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ وزیر اعظم مودی کے دور میں انہیں درست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ”دہائیوں سے یہ تصور پیدا کیا گیا تھا کہ ان غلطیوں کو درست نہیں کیا جا سکتا، لیکن مودی حکومت نے اس تصور کو توڑ دیا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور اب سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی اس کی مثالیں ہیں۔
وزیر خارجہ نے سندھ طاس معاہدے کو 'دنیا کا انوکھا معاہدہ' قرار دیتے ہوئے کہا کہ شاید ہی کوئی ایسی مثال ملے جہاں کسی ملک نے اپنی لائف لائن کہی جانے والی اہم ندیوں کے پانی پرکنٹرول کے اختیار کے بغیرانہیں دوسرے ملک کے لئے چھوڑ دیا ہو۔ انہوں نے اس معاہدے کے عدم مساوات اور طویل مدتی اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت اپنے آبی وسائل پر مکمل حق قائم کرے اور قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
ہندوستھا ن سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد