از قلم: اشونی ویشنو (مرکزی وزیر برائے ریلوے، الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور اطلاعات و نشریات ،حکومت ہند)ایک نیا بھارت تشکیل پا رہا ہے جہاں ترقی کو صرف جی ڈی پی میں نہیں بلکہ وقار اور مواقع کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اَّنم لکشمی بھوانی، کڑپہ کی ایک گھریلو خاتون، ایک کامیاب جوٹ بیگ مینوفیکچرنگ یونٹ شروع کرنے کے لیے مدرا لون حاصل کرتی ہیں۔ ہریانہ میں جگ دیو سنگھ اے آئی ایپ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی فصلوں سے متعلق فیصلے کرتے ہیں۔ اور، میرا مانجھی کو اجولا کے تحت ایل پی جی کنکشن ملتا ہے، جس سے دھوئیں سے پاک باورچی خانہ اور اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ معیاری وقت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔یہ پورے بھارت کے گاؤں، قصبوں اور شہروں کی روزمرہ کی حقیقتیں ہیں۔ یہ تبدیلیاں بتدریج اصلاحات اور ایک ایسی قیادت سے جنم لیتی ہیں جو آخری شہری کو بااختیار بنانے پر یقین رکھتی ہے۔انتودیہ پرعمل آوریانتودیہ کے فلسفے نے ابتدا سے ہی، ہماری رہنمائی کی ہے – سماج کے سب سے نچلے طبقے کے لوگوں کواوپر اٹھانا۔ گزشتہ 11 برسوں میں ہر پالیسی، ہر سرمایہ کاری، اور ہر اختراع کو اسی نظریے سے تشکیل دیا گیا ہے۔یہ نظریہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی رہنمائی اورقیادت میں پروان چڑھا ہے۔ نریندر یہ نظریہ عام لیکن چارطاقتور ستونوں پر کھڑا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیرجو آپس میں جوڑنے کا کام کرتی ہے، ترقی جو ہمہ جہت ہے، مینوفیکچرنگ جو ملازمتیں پیدا کرتی ہے، اور ایسے سہل نظام کی تشکیل جو لوگوں کو بااختیار بناتا ہے۔پہلا ستون: انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاریگزشتہ گیارہ برسوں میں اثاثہ جاتی سرمایہ سے متعلق اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو 26-2025 میں 11.2 لاکھ کروڑ روپئے تک پہنچ گیا ہے۔ عوامی سرمایہ کاری میں یہ اضافہ ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے - فزیکل، ڈیجیٹل اور سوشل سب میں نمایاں ہے۔پچھلے 11 برسوں میں، بھارت میں فزیکل انفراسٹرکچر نے تیز رفتاری سے ترقی کی ہے۔ تقریباً 59,000 کلومیٹر شاہراہیں بنائی گئی ہیں، اور 37,500 کلومیٹر سے زیادہ ریلوےلائن بچھائی گئی ہے۔
حال ہی میں، چناب اور انجی پلوں کا افتتاح کیا گیا جو ایک جدید بھارت کی علامت ہیں۔ کشمیر کے لوگوں کے لیے ان پلوں کے ذریعے وندے بھارت کی آمد ایک خواب کی طرح محسوس ہوئی۔ ایک مسافر نے آنکھوں میں آنسو لیے کہا کہ اس نے کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ یہ دن آئے گا۔
رابطے کا یہ جذبہ ریلوے سے آگے ڈیجیٹل شاہراہوں تک وسیع ہے۔ ہندوستان کا ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر(ڈی پی آئی) ایک عالمی پیمانہ بن چکا ہے۔ یو پی آئی، آدھار اورڈیجی لاکر اب عالمی سطح پر ان کے پیمانے اور جامعیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ 141 کروڑ سے زیادہ آدھار رجسٹریشن اور روزانہ 60 کروڑ یو پی آئی لین دین اس کی رسائی اورمقبولیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس نظریے کا پس منظر بالکل واضح ہے:تمام طبقات تک ٹیکنالوجی کی رسائی کو یقینی بنانا۔
یہی نظریہ انڈیا اے آئی مشن کا محرک ہے۔ 34,000 سے زیادہ تیز رفتار کمپیوٹر چپس، جنہیں جی پی یوز کہا جاتا ہے، اب سب کے لیے دستیاب ہیں۔ وہ بھی صرف ایک تہائی عالمی قیمت پر۔ یہ چپس اے آئی کی ترقی کے حصے کے طور پر ضروری ہیں، خاص طور پر اے آئی سے متعلق مختلف اُمور میں ٹریننگ کے لیے ۔اس کو مزید مستحکم کرنے کے لیے، اے آئی کوش پلیٹ فارم تیار کیا گیا ہے جہاں 370 سے زیادہ ڈیٹا سیٹس اور 200 استعمال کے لیے تیار اے آئی ماڈلز سیکھنے اور اختراع کے لیے دستیاب ہیں۔
رسائی پر یہ توجہ ٹیکنالوجی کو تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی خدمات تک وسعت دی گئی ہے۔ 11 برسوں میں، میڈیکل کالجوں کی تعداد 387 سے بڑھ کر 780 ہو گئی ہے اور ایمس کی تعداد 7 سے بڑھ کر 23 ہو گئی ہے۔ایم بی بی ایس اور پی جی کی سیٹیں بھی دگنے سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ یہ معیاری تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کو سب کے لیے قابل رسائی بنانے کے لیے مضبوط عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسرا ستون: جامع ترقی
ہمارے ترقیاتی ماڈل کی سب سے طاقتور شواہد وہ افراد ہیں جن کی زندگیوں میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ 530 ملین سے زیادہ جن دھن اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں جو کہ یورپ کی آبادی سے زیادہ ہے۔ 40 ملین گھر تعمیر ہو چکے ہیں، 120 ملین بیت الخلاء تعمیر ہو چکے ہیں، اور 100 ملین خاندان اب لکڑی استعمال کرنے کے بجائے صاف ایل پی جی سے کھانا پکاتے ہیں۔
’’ہر گھر جل‘‘ کے تحت نل کے پانی کے کنکشن بھی 140 ملین گھرانوں تک پہنچ چکے ہیں۔ آیوشمان بھارت کے تحت ہیلتھ انشورنس 350 ملین لوگوں کا احاطہ کرتا ہے، اور 110 ملین کسانوں کو اب پی ایم – کسان کے ذریعے براہ راست آمدنی ہورہی ہے۔
یہ اعداد وشمار اجولا سے فائدہ اٹھانے والی10 کروڑویں فرد میرا مانجھی جیسے لوگوں کی زندہ کہانیوں پر مشتمل ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح 2.5 لاکھ روپئے بغیر کسی درمیانی شخص کے براہ راست اس کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائے گئے۔ اب اس کے پاس ہر گھر جل کے ذریعے نل کا پانی، ہر ماہ مفت راشن، اور اجولا کے تحت دھوئیں سے پاک باورچی خانہ ہے۔
یہ اس قدر جامع ترقی ہے جو ہماری حالیہ تاریخ میں کسی دور میں نہیں دیکھی گئی۔
تیسراستون: مینوفیکچرنگ اوراختراع
2015 میں، ہم نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور صنعتی ترقی کو بحال کرنے کے لیے میک ان انڈیا کا آغاز کیا۔ آج الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ 6 گنا بڑھ کر 12 لاکھ کروڑ روپئے سے تجاوز کر گئی ہے۔ الیکٹرانکس کی برآمدات 8 گنا بڑھ کر 3 لاکھ کروڑ روپے کو عبور کر کے سب سے زیادہ برآمد شدہ اشیاء میں شامل ہو گئی ہیں۔ بھارت اب موبائل فون بنانے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
اب ہم نئی الیکٹرانک اجزاء مینوفیکچرنگ اسکیم کے تحت الیکٹرانک اجزاء تیار کرکے مینوفیکچرنگ ویلیو چین کو مزیدمضبوط کررہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، ہندوستان کا سیمی کنڈکٹر مشن ایک بلیو پرنٹ سے کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک کا پہلا کمرشل فیب زیر تعمیر ہے۔ پانچ اوسیٹ یونٹس چل رہے ہیں۔ اور گھریلو آئی پی کے ساتھ 20 سے زیادہ چپ سیٹ ہندوستان میں طلباء اور انجینئروں نے ڈیزائن کیے ہیں۔ ہم نے عالمی معیار کے ای ڈی اے ٹولز کے ساتھ 270 یونیورسٹیوں کو منسلک کیا ہے۔ یہ ایک سیمی کنڈکٹر ٹیلنٹ پائپ لائن کی بنیاد رکھ رہا ہے جس پر دنیا اعتماد کر سکتی ہے۔
چوتھا ستون: قوانین کو آسان بنانا
طرزحکمرانی میں پچھلی دہائی سے ایک خاموش انقلاب برپا ہے۔ 1,500 سے زیادہ پرانے قوانین کو منسوخ کیا گیا اور 40,000 سے زیادہ احکامات کو ہٹا دیا گیا۔ ٹیلی کام ایکٹ اور ڈی پی ڈی پی ایکٹ جیسے نئے قوانین اعتماد اور سہل پسندی کے ساتھ بنائے گئے ہیں، جوشک کے بجائے شہریوں کے ساتھ با وقار سلوک کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ اس نے سرمایہ کاری، اختراعات اور نفاذ کی حوصلہ افزائی کی ہے، جس سے ترقی کے بہترین دور کا آغاز ہوا ہے۔
مودی کا نظریہ
ان 11 برسوں میں دہشت گردی کے تئیں بھارت کا انداز بدل گیا ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک، ایئر اسٹرائیک اور اب آپریشن سندور سے لے کر بھارت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واضح جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہر جواب ایک تیز، فیصلہ کن کارروائی کی عکاسی کرتا ہے — اور وہ بھی ہماری اپنی شرائط پر۔
دہشت گردانہ حملوں کا جواب دینے کا یہ نیا طریقہ مودی کے نظریے کا حصہ ہے۔ یہ تین ستونوں پر مبنی ہے۔ بھارت کی شرائط پر فیصلہ کن جوابی کارروائی، جوہری بلیک میلنگ کے لیے قطعی برداشت نہ کرنے کا نظریہ اور دہشت گردوں اور ان کے معاونین کے درمیان کوئی فرق نہ کرنا۔اس بار جس چیز نے ہمارے ردعمل کو اور بھی اہم بنا دیا وہ مقامی ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں کا استعمال تھا۔ ایک قوم جو وکست بننے کی خواہش رکھتی ہے اسے نہ صرف اپنے لوگوں کا دفاع کرنا چاہیے بلکہ آتم نربھرتا کے ساتھ ایسا کرنا چاہیے اور بھارت نے بالکل ایسا ہی کیا۔اعتمادپہلے ترقی کو تعداد میں ماپا جاتا تھا۔ آج، یہ تبدیل شدہ زندگیوں میں ماپا جاتا ہے۔ ایک گھریلو شخص جو روزگار دینے والا بن گیا۔ زراعت میں اے آئی ایپ استعمال کرنے والا کسان۔ ایک ماں جس کا باورچی خانہ اب دھوئیں سے نہیں بھرتا۔ یہ خاموش انقلابات ہیں جو پورے ملک میں رونما ہو رہے ہیں۔2004 میں، اٹل جی کے دور کے اختتام پر، ہندوستان دنیا کی 11ویں بڑی معیشت تھی۔ 2004 اور 2014 کے درمیان، ہندوستان 11 ویں پوزیشن پر رہا، جو ایک دہائی سے محروم رفتار کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں وزیراعظم مودی کی اصلاح پسند پالیسیوں کی وجہ سے بھارت نے پھر سے رفتار حاصل کی۔ آج ہم دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کے راستے پر مضبوطی سے گامزن ہیں۔وزیر اعظم مودی کی قیادت میں، ان 11 برسوں کی جامع ترقی نے لوگوں کو سبسڈی یا خدمات سے زیادہ قیمتی چیز دی ہے۔ انہوں نے ان کے اندر یقین پیدا کیا ہے اور بہتر مستقبل پر پختہ یقین ہی ملک کو آگے بڑھاتا ہے۔
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan