ممبئی، 19 اپریل (ہ س)۔
خصوصی مکوکا عدالت نے ہفتہ کے روز این سی پی کے
مرحوم لیڈر بابا صدیق کی اہلیہ شہزین صدیق کی جانب سے دائر کی گئی عرضی کو منظور
کرتے ہوئے انہیں اپنے شوہر کے قتل کے مقدمے میں استغاثہ میں شامل ہونے کی اجازت دے
دی۔ شہزین صدیق نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ انہیں مقدمے کی سماعت کے دوران
استغاثہ کی مدد کرنے کی اجازت دی جائے، کیونکہ ان کا خاندان اس جرم کا اصل اور
حتمی شکار ہے۔
66 سالہ بابا صدیق کو 12 اکتوبر 2014 کو
باندرہ میں ان کے بیٹے ذیشان صدیق کے دفتر کے قریب اس وقت گولی مار کر قتل کر دیا
گیا تھا جب وہ دفتر سے روانگی کے لیے گاڑی میں سوار ہونے جا رہے تھے۔ تین حملہ
آوروں نے، جو مبینہ طور پر بشنوئی گینگ کے ارکان تھے، ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔
حملہ انتہائی تیز رفتار تھا جس سے ان کے محافظوں کو رد عمل ظاہر کرنے کا موقع تک
نہ مل سکا۔ حملہ آوروں کو بعد ازاں پولیس نے فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار کر
لیا۔ ممبئی پولیس نے اس قتل کیس میں مجموعی
طور پر 26 افراد کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے۔ پولیس کے مطابق اس قتل کا حکم انمول
بشنوئی نے دیا تھا، جو مذکورہ گینگ کا سرغنہ ہے۔ مقدمے کی سماعت تاحال شروع نہیں
ہوئی ہے۔ بابا صدیق کی بیوہ شہزین صدیق نے گزشتہ
ماہ اپنے وکلاء پردیپ گھرت اور تریوان کمار کرنانی کے توسط سے ایک عرضی داخل کی
تھی، جس میں مقدمے کی کارروائی میں استغاثہ کی مدد کے لیے فریق بننے کی اجازت
مانگی گئی۔ شہزین نے اپنی عرضی میں کہا کہ یہ قتل ایک پہلے سے منصوبہ بند، سنگین
اور بے رحمانہ عمل تھا، جس میں ان کا خاندان سب سے زیادہ متاثر ہوا۔
شہزین نے عدالت کے سامنے یہ موقف
اختیار کیا کہ انہیں متاثرہ فریق کے طور پر سنے جانے کا حق حاصل ہے، جو کہ سپریم
کورٹ کی مختلف فیصلوں میں تسلیم شدہ اصول ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصور اب
قائم ہو چکا ہے کہ متاثرہ شخص جرم کا اصل شکار ہوتا ہے۔ فوجداری نظام انصاف کی
اخلاقی بنیاد متاثرہ فریق سے پوشیدہ نہیں ہونی چاہیے۔ متاثرین کو سننے اور انہیں
مجرمانہ کارروائی میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔
شہزین نے اپنی عرضی میں مزید کہا کہ
انہوں نے اس قتل کے باعث ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے، اور یہ کہ ان کی طرف سے
سچے اور درست حقائق کو عدالت کے ریکارڈ پر لانا انتہائی ضروری ہے تاکہ عدالت
آزادانہ اور منصفانہ نتیجے پر پہنچ سکے۔ انہوں نے کہا کہ کیس میں کئی ایسے اہم
پہلو ہیں جنہیں مناسب اہمیت دینا لازمی ہے۔
دوسری جانب بابا صدیق کے بیٹے ذیشان
صدیق نے بھی اپنے والد کے قتل سے متعلق ایک اہم پہلو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ
ان کے والد کو بھارت نگر کی تعمیر نو کے منصوبے میں کچی آبادیوں کی مبینہ حمایت کی
وجہ سے بعض حلقوں کی مخالفت کا سامنا تھا۔ ذیشان صدیق نے کئی افراد کے ناموں کا
بھی ذکر کیا، جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ وہ باندرہ کے مشرقی اور مغربی
علاقوں میں واقع کچی آبادیوں کی بازآبادکاری میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے یہ
بھی الزام لگایا کہ تحقیقاتی ایجنسیوں نے اس زاویے کو مناسب طریقے سے نہیں پرکھا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / نثار احمد خان