مرشد آباد تشدد : اب تک 315 گرفتار، دو نابالغ بھی شامل
مرشد آباد تشدد : اب تک 315 گرفتار، دو نابالغ بھی شامل ۔ پولیس رپورٹ : شمشیر گنج میں ہجوم نے ہندو خاندانوں کو نشانہ بنایا کولکاتا، 19 اپریل (ہ س)۔ وقف (ترمیمی) ایکٹ کی مخالفت میں گزشتہ ہفتے مرشد آباد ضلع میں پھوٹ پڑے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں
مرشد آباد تشدد: فائل فوٹو


مرشد آباد تشدد : اب تک 315 گرفتار، دو نابالغ بھی شامل

۔ پولیس رپورٹ : شمشیر گنج میں ہجوم نے ہندو خاندانوں کو نشانہ بنایا

کولکاتا، 19 اپریل (ہ س)۔ وقف (ترمیمی) ایکٹ کی مخالفت میں گزشتہ ہفتے مرشد آباد ضلع میں پھوٹ پڑے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں اب تک 315 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں دو نابالغ بھی شامل ہیں۔ گرفتار شدگان میں سے بیشتر کو ابھی تک ضمانت نہیں ملی ہے۔ صرف دو نابالغوں کو رہا کیا گیا ہے۔ افواہیں اور غلط معلومات پھیلانے والے کل 1,257 انٹرنیٹ لنکس (یو آر ایل) کو بھی اب تک بلاک کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد 8 اپریل کو رگھوناتھ گنج پولیس اسٹیشن کے تحت پی ڈبلیو ڈی گراونڈ میں وقف (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف منعقدہ مظاہرے کے دوران شروع ہوا۔ دوپہر میں بھیڑ اچانک پرتشدد ہو گئی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ ہجوم کے پاس مہلک ہتھیار تھے اور انہوں نے تعینات پولیس اہلکاروں سے ہتھیار بھی چھین لیے۔

مرشد آباد تشدد پر مغربی بنگال پولیس کی رپورٹ کے مطابق ضلع انٹیلی جنس برانچ کو 11 اپریل کو نماز جمعہ کے بعد عمر پور (رگھوناتھ گنج تھانہ)، ساجور موڑ (سوتی تھانہ) اور اولڈ ڈاک بنگلہ موڑ (شمشیر گنج تھانہ) میں ممکنہ احتجاج کے بارے میں پیشگی اطلاع ملی تھی۔ رپورٹ میں درج مقامی لوگوں کے کردار نے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور ریاستی حکومت کے اس دعوے پر سوالات اٹھائے ہیں کہ تشدد کے لیے ’’بیرونی عناصر‘‘ ذمہ دار ہیں۔ پولیس رپورٹس کے مطابق، 12 اپریل کو شمشیر گنج تھانے کے تحت گھوش پاڑا علاقے میں ایک مقامی مسجد کے قریب ایک ہجوم جمع ہوا اور خاص طور پر ہندو خاندانوں سے تعلق رکھنے والے گھروں کو نشانہ بنایا۔ اگلے دن ایک اور ہجوم نے کنچنتلا مسجد کے قریب ہندو خاندانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی کوشش کی۔

قابل ذکر ہے کہ جسٹس سومن سین اور جسٹس راجہ باسو چودھری پر مشتمل کلکتہ ہائی کورٹ کی خصوصی ڈویژن بنچ نے 12 اپریل کی شام کو مرکزی نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کا حکم دیا تھا۔ بنچ نے واضح طور پر کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے ریاستی حکومت کے اقدامات ناکافی ہیں۔ عدالت نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ اگر مرکزی فورسز کی تعیناتی بروقت ہوتی تو حالات اتنے سنگین اور دھماکہ خیز نہ ہوتے۔

ہندوستھان سماچار

---------------

ہندوستان سماچار / انظر حسن


 rajesh pande