تہران،29مارچ(ہ س)۔
ایرانی حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھیجے گئے اس مکتوب کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد اس کا جواب دے دیا ہے۔ دوسری طرف ایرانی ذرائع مکتوب کے متن کا انکشاف کیا۔عمان کے عرب سینٹر فار ایرانی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد صالح صدقیان نے ٹرمپ کےمکتوب کا متن اپنے ایکس اکاو¿نٹ پر پوسٹ کیا ہے۔
پیغام کے متن میں لکھا گیا ہےکہ جناب آیت اللہ خامنہ ای، آپ کی قیادت اور ایران کی عوام کے تہہ دل سےاحترام کے ساتھ یہ خط اپنے تعلقات کے لئے نئے افقوں کو کھولنے کے مقصد کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ ہم نے تعلقات کو گذشتہ دہائیوں میں تنازعات، غلط فہمیوں اور غیر ضروری موقعوں سے بھی خراب کیا ہے۔ دشمنی چھوڑ کر تعاون اور باہمی احترام کا نیا باب کھولنے کا وقت ہے۔ آج ہمارے سامنے بھی ایک تاریخی موقع ہے۔ امریکہ میری قیادت میں ایک ساتھ مل کر امن اور خوشحالی کی طرف ایک بڑا قدم اٹھانے کے لئے تیار ہے، ہم اپنے دونوں ممالک کے عوام کے مفادات کو بااختیار بناسکتے ہیں ، بلکہ ہم مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا میں امن اور استحکام کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا کہ لیکن میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ اگر آپ امن کے لیے اس بڑھے ہوئے ہاتھ کو مسترد کرتے ہیں۔ اگر ایرانی حکومت نے دہشت گردوں کی حمایت کا راستہ اختیار کیا اور دہشت گرد تنظیموں کی حمایت جاری رکھی تو ہمارا رد عمل فیصلہ کن اور برق رفتار ہوگا۔ ہم آپ کی حکومت کی طرف سے اپنے عوام یا اپنے اتحادیوں کو دی جانے والی دھمکیوں کے سامنے خاموش نہیں رہیں گے۔امن کمزوری نہیں بلکہ مضبوط کا انتخاب ہے۔ ایرانی عوام ایک عظیم قوم ہیں جو تنہائی، غربت اور مصائب سے دور ایک بہتر مستقبل کے مستحق ہیں۔
اگر آپ مذاکرات کے لیے تیار ہیں تو ہم بھی تیار ہیں، لیکن اگر آپ دنیا کے مطالبات کو نظر انداز کرتے رہے تو تاریخ یاد رکھے گی کہ آپ نے ایک بہت بڑا موقع گنوا دیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام پر سمجھوتہ کرنے میں ناکام رہا تو میں اس بات کو ترجیح دوں گا کہ ہم ایران کے ساتھ کسی حل تک پہنچ جائیں۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جمعرات کو ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعلان کیا تھا کہ تہران نے سلطنت عمان کے ذریعے ٹرمپ کے خط کا جواب بھیجا ہے ، تاہم انہوں نے کہا کہ دھمکیوں کے دباو¿ میں مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ایجنسی فرانس پریس کے مطابق، انہوں نے اوول آفس میں نامہ نگاروں کو بتایا، میں زیادہ ترجیح دوں گا کہ ہم ایران کے ساتھ کسی حل تک پہنچ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ لیکن اگر ہم کسی حل تک نہیں پہنچتے تو ایران کو برے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب جمعرات کو ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعلان کیا تھا کہ تہران نے سلطنت عمان کے توسط سے ٹرمپ کے خط کا جواب بھیجا ہے جس میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایک نیا جوہری معاہدہ کرے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہماری پالیسی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباو¿ اور فوجی دھمکیوں کے تحت براہ راست مذاکرات میں شامل نہ ہوں۔ جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے، تاہم بالواسطہ مذاکرات جاری رہ سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ ہم نے ٹرمپ کو لکھے مکتوب میں موجودہ صورتحال اور مسٹر ٹرمپ کے پیغام پر تفصیلی بات کی ہے۔
انہوں نے پہلی بار یروشلم ڈے کی تقریبات کے موقع پر صحافیوں کے سامنے بیانات میں انکشاف کیا کہ ٹرمپ کے پیغام میں کچھ حصوں میں دھمکیاں تھیں۔تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایرانی عوام سے دھمکیوں کی زبان میں بات کرنا بے سود ہے۔ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کی کہ ان کے ملک نے محتاط اور نپے تلے انداز میں ٹرمپ کے مکتوب کا جواب دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس پیغام کا بغور مطالعہ کیا۔ اس کی مختلف جہتوں پر تبادلہ خیال کیا، اور اس کا مناسب جواب امریکی فریق تک پہنچایا۔
عباس عراقچی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ سفارت کاری کے لیے ایک کھڑکی کھولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ٹرمپ کے پیغام کے بارے میں افشا ہونے والی رپورٹس کے بارے میں عراقچی نے ان کی صداقت کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ گردش کرنے والی ہر چیز مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔کچھ رپورٹس میں بتایا گیا کہ امریکی صدر نے فروری کے آخر میں ایرانی سپریم لیڈر کو بھیجے گئے خط کا جواب دینے کے لیے تہران کو دو ماہ کا وقت دیا تھا۔جبکہ ایرانی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ دھمکی کے تحت مذاکرات نہیں کریں گے۔ تاہم انہوں نے بالواسطہ مذاکرات کے امکان کا اشارہ دیا۔یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی صدر نے اپنی پہلی مدت کے دوران 2018 ءمیں جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور تہران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
گذشتہ فروری میں اس نے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباو¿ کی پالیسی کو دوبارہ نافذ کیا، جس میں اس کی تیل کی برآمدات کو مکمل طور پر روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔ اس بات کے باوجود کہ وہ ایک نئے جوہری معاہدے کا خواہاں ہے۔غور طلب ہے کہ گذشتہ نومبر سے اسرائیل نے امریکہ اور فرانس کے تعاون سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، جس کی نگرانی امریکہ-فرانسیسی-اقوام متحدہ کی کمیٹی کرے گی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan