وقف (ترمیمی) بل 2024 کس انداز میں خدشات اور مسائل کا حل پیش کرتا ہے
از: ہرش رنجن، سینئر صحافی وقف املاک کا مقصد برادری کی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ یہ تعلیم حفظانِ صحت یا مذہبی مقاصد ہو سکتے ہیں، تاہم زمینوں پر ناجائز قبضے، جعلی دعوے اور سیاسی روابط کے حامل افراد کے ذریعہ اس کا غلط استعمال ایسے پہلو رہے ہیں جنہوں نے تشو
وقف (ترمیمی) بل 2024 کس انداز میں خدشات اور مسائل کا حل پیش کرتا ہے


از: ہرش رنجن، سینئر صحافی

وقف املاک کا مقصد برادری کی فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ یہ تعلیم حفظانِ صحت یا مذہبی مقاصد ہو سکتے ہیں، تاہم زمینوں پر ناجائز قبضے، جعلی دعوے اور سیاسی روابط کے حامل افراد کے ذریعہ اس کا غلط استعمال ایسے پہلو رہے ہیں جنہوں نے تشویش پیدا کی ہے۔ ناداروں کی خدمات انجام دینے کے بجائے یہ املاک اکثر نجی فوائد کے لیے استعمال ہوتی ہوئی دکھی ہیں۔ نئے بل میں اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ وقف املاک کا تحفظ ہو اور اسے اصل مقصد کے لیے ہی استعمال کیا جائے۔

وقف ترمیمی بل 2024 ایک اہم قانون ساز قدم ہے جس کا مقصد بدانتظامی، بدعنوانی اور وقف املاک پر کیے گئے ناجائز قبضوں کے طویل مسائل کا دیرینہ حل نکالنا ہے۔ مجوزہ ترامیم وقف بورڈوں کے اندر شفافیت میں اضافہ لانے، قانونی ملکیت کو یقینی بنانے اور احتساب اور حکمرانی کے لیے ایک مضبوط میکنزم قائم کرنے پر مرکوز ہیں۔ وقف املاک انتظام سے متعلق بنیادی تشویشات میں سے ایک معقول شناخت اور ڈیجیٹائزیشن کا پہلو رہا ہے۔ اس بل کے ذریعہ دفعات 54 اور 55 کا مو?ثر نفاذ عمل میں آئے گا۔ ان دونوں دفعات کا تعلق املاک پر ناجائز قبضوں کی روک تھام ہے۔ وقف املاک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان دفعات میں ایسی تمام املاک کی شناخت اور ڈیجیٹائزیشن کے عمل کو لازم قرار دیا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ تیز رفتار پیمانے پر متنازعہ املاک سے متعلق مقدمے بازی کو تیزی سے نمٹانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ ڈیجیٹل لحاظ سے ریکارڈ بنانے کے ذریعہ بے بنیاد دعوو?ں کی روک تھام اور جعلی سودوں کی روک تھام ممکن ہو سکے گی، اس امر کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ وقف املاک اپنے طے شدہ خیراتی اور مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہوں۔

وقف کی موجودہ اصطلاح، جس پر 2013 میں نظرثانی کی گئی تھی، اس کے تحت اس بات کا جواز ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی جائیداد کو وقف کے طور پر دے سکتا ہے، اس کے نتیجے میں متعدد جعلی دعوے داخل کرنے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ترمیمی بل میں 2013 سے قبل کی حالت کی بحالی کی بات کی گئی ہے، یعنی اس کے تحت یہ بات لازمی ہوگی کہ صرف اسلامی عقیدے کا حامل ایک شخص جو جائیداد کا قانون مالک ہو، وہ اس جائیداد کو وقف کے طور پر دے سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ وہ کم از کم گذشتہ پانچ برسوں سے اسلام پر کاربند رہا ہو۔ یہ قدم مشکوک طور پر جائیدادیں وقف کرنے کے عمل کی روک تھام کرے گا اور اس امر کو یقینی بنائے گا کہ صر ف اصل مذہبی عطیات ہی تسلیم کیے جائیں۔

ملکیت کی تصدیق ان اصلاحات کا ایک اہم پہلو ہے۔ مجوزہ دفعہ 3 اے کے تحت یہ بات لازم ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص وقف کی جائیداد نہیں دے سکتا جب تک کہ وہ شخص اس جائیداد کا قانونی مالک نہ ہو۔ یہ تجویز ان تنازعات کا خاتمہ کرے گی جہاں جائیدادیں فرضی طور پر وقف کے تحت دعوے میں لائی گئی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اصل مالک کے پاس اس کی قانونی ملکیت تھی ہی نہیں۔

ایک دیگر کلیدی اصلاح ”وقف بائی یوزر“ تجویز کا خاتمہ ہے جو اس سے قبل طویل المدت استعمال کی بنیاد پر املاک کو وقف کے طور پر نامزد کرنے کے لیے مستعمل تھی۔ یہ تجویز ایسی ہے جس کے تحت سرکاری ملکیت کے حامل اثاثے سمیت املاکیں غلط طور سے وقف کے زمرے میں آگئی تھیں۔ ترمیم کے تحت، ایک رسمی وقف نامے کی حامل جائیدادوں کو ہی وقف تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ناجائز دعووں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ تاہم موجودہ درج رجسٹر املاک جو وقف بائی یوزر کے ساتھ درج رجسٹر ہیں ان کا تحفظ اس وقت تک کیا جائے گا جب تک وہ متنازعہ ہوں یا حکومت کی ملکیت میں ہوں، اس طرح سے برادری کے مفاد اور سرکاری املاکے حقوق کے مابین ایک توازن قائم کیا گیا ہے۔

وقف بورڈوں کے ذریعہ غلط طریقے سے جائیدادوں کو اپنے قبضے میں لینے کے عمل کی روک تھام کے لیے، بل میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وقف سے مماثل مقاصد کے لیے مسلمانوں کے ذریعہ قائم کیے گئے ٹرسٹ تاہم جن کا انتظام و انصرام دیگر قانونی تجاویز کے تحت کیا جاتا ہو انہیں وقف املاک نہیں تسلیم کیا جائے گا۔ اس وضاحت کے نتیجے میں آزادانہ مسلم خیراتی ٹرسٹوں کے انتظامی امور میں وقف بورڈوں کی دخل اندازی کا راستہ بند ہو جائے گا۔

یہ بل وقف بورڈوں کے اندر کارفرما انتظام عدم اثر انگیزیوں کے مسئلے کا حل بھی نکالے گا۔ ایک بڑا مسئلہ ڈیجیٹل ریکارڈس کی ناکامی اور انہیں وامسی پورٹل پر اپلوڈ کرنے کا رہا ہے۔ ترمیم کے تحت یہ بات لازم قرار دی گئی ہے کہ وقف بورڈ املاک کو چھ مہینے کے اندر درج رجسٹر کیا جانا چاہئے، اس کے ذریعہ فزوں تر شفافیت اور آسان رسائی ممکن ہو سکے گی۔

ایک دیگر تشویش سرکاری املاک کو وقف قرار دینے سے متعلق رہی ہے، جیسا کہ دہلی میں 123 وقف املاک کے مقدمات کے معاملے میں ملاحظہ کیا گیا ہے اور یہ تنازعات سورت میونسپل کارپوریشن سے بھی متعلق رہے ہیں۔ اس کا سدباب کرنے کے لیے دفعہ 3سی کے تحت یہ انتظام کیا گیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری املاک جسے سابقہ طور پر یا فی الحال وقف قرار دیا گیا ہے، اسے ایک نامزد افسر کے ذریعہ توثیق کے بغیر وقف تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہ افسر جسے ریاستی حکومت مقرر کرے گی، اپنے طور پر تفتیش کا اہتمام کرے گا اور اس امر کو یقینی بنائے گا کہ سرکاری املاک کا تحفظ ممکن ہو سکے۔

اس بل میں التوائ میں پڑے ہوئے وقف سروے کے کام کو منتقل کرنے کی بات بھی شامل ہے، یعنی یہ کام کریکٹر کے دائرہ اختیار میں منتقل ہو جائے گا جو اس پورے عمل کو مکمل کرنے کے لیے ریاستی دیوانی قوانین پر عمل کرے گا۔ یہ اصلاح اس امر کو یقینی بنائے گی کہ وقف املاک کے سروے مزید اثر انگیزی اور کسی جانبداری کے بغیر انجام دیے جا سکیں۔

ریاستی وقف بورڈوں کی تنقید ان کی عدم احتسابی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور خارجی فریقوں کے ساتھ ان کی ساز باز کے لیے کی جاتی رہی ہے۔ ان تمام مسائل کا حل نکالنے کے لیے بل میں یہ بات لازم قرار دی گئی ہے کہ ریاستی وقف بورڈ کو ماہانہ میٹنگوں کا اہتمام کرنا چاہئے، باقاعدہ نگرانی اور فیصلہ لینے کے عمل کو یقینی بنانا چاہئے۔ اس کے علاوہ وقف کو درج رجسٹر کرنے کے سلسلے میں دی گئی کوئی بھی درخواست کو تصدیق اور جانچ پڑتال کے لیے کلکٹر کو منتقل کر دیا جائے گا، اس کے ذریعہ پورے عمل کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا اور وقف بورڈوں کے ذریعہ اس میں ثالثی کے طورپر فیصلے نہیں لیے جا سکیں گے۔

مزید برآں اس بل میں وقف بورڈوں کے مخصوص اختیارات کو موضوع بنایا گیا ہے ، یعنی کسی بھی جائیداد کو دفعہ 40 کو نظر انداز کرکے وقف نہیں قرار دے سکیں گے۔ اس سے قبل اس طرح کے اعلانات کسی باقاعدہ چھان پھٹک کے بغیر کر لیے جاتے تھے۔ وقف انتظام کی دیانت داری کو بڑھانے کےلیے نئی تجویز متعارف کرائی گئی ہے۔ متولیوں کو نااہل قرار دینے کےلیے سخت ترین اصول مرتب کیے گئے ہیں۔ یعنی ایسے لوگ جو بدعنوانیوں میں ملوث پائے جائیں انہیں تولیت سے فارغ کیا جا سکے۔ حصص داران کے لیے بہتر قانونی وسیلہ فراہم کرنے کی غرض سے بل میں دفعہ 83(9) کے تحت ایک اپیلیٹ میکنزم شامل کیا گیا ہے جس کے ذریعہ اس امر کو یقینی بنایا جائے گاکہ ٹربیونل کے فیصلوں کو چنوتی دی جا سکے جس کے ذریعہ قانونی چارہ جوئی کا عمل مستحکم ہوگا۔ اس کے علاوہ وقف تنازعات کے معاملے میں لمیٹیشن ایکٹ کے نفاذ کی وجہ سے غیر معینہ مقدمے بازی کا تدارک ہوگا، تنازعات کے بروقت حل نکالے جا سکیں گے۔

آخر میں، بل میں 108اے دفعہ کو خارج کرنے کی تجویز بھی شامل کی گئی ہے جو اس سے قبل دیگر قوانین کو نظرانداز کرنے کا راستہ فراہم کرتا تھا۔ اس کے ذریعہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ وقف حکمرانی کےمعاملے میں مزید یکساں اور قانونی طور پر جامع طریقہ کار اپنایا جاسکے۔

مجموعی طور پر، وقف ترمیمی بل 2024 بدعنوانی کی روک تھام کے لیے ازحد ضروری طور پر درکار اصلاحات کی بات کرتا ہے۔ ناجائز دعوو ں کے تدارک کی بات کرتا ہے اور وقف املاک کے مو?ثر انتظام کو یقینی بناتا ہے۔ شفافیت کو یقینی بناکر قانونی ملکیت کی تصدیق کرکے، انتظامی احتساب نظام فراہم کرکے یہ بل وقف بورڈوں کی معتبریت بحال کرنے کی بات کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ مسلم برادری اور عوام الناس کے مفادات کا تحفظ بھی کرتا ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / عطاءاللہ


 rajesh pande