واشنگٹن،10مارچ(ہ س)۔اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ ہفتوں کے دوران میں غزہ کے حوالے سے اپنے سابقہ منصوبے اور غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی اپنے ہمسایہ ممالک جبری ہجرت کے موقف سے پیچھے ہٹ چکے ہیں ... ایسا نظر آتا ہے کہ اسرائیل اس منصوبے کو مسلط کرنے کے درپے ہے۔اسرائیل کے دائیں بازو کے شدت پسند وزیر خزانہ بتسلیل سموٹرچ نے کل اتوار کے روز پارلیمنٹ کے سامنے اسرائیل اور امریکا میں پارلیمانی پریشر گروپوں کی تشکیل کا انکشاف کیا۔ اس کا مقصد ٹرمپ کے مذکورہ منصوبے کے نفاذ کے لیے کام کرنا ہے تا کہ غزہ کی پٹی پر قبضے اور اس کی آبادی کی بے دخلی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی بستیوں کی بڑی توسیع کا اجرا کیا جا سکے۔سموٹرچ کے مطابق ٹرمپ کے منصوبے میں ایک سال تک روزانہ 5 ہزار یا چھ ماہ تک روزانہ 10 ہزار فلسطینیوں کی بے دخلی مذکور ہے۔اگر تیزی سے حساب کیا جائے تو 5000 افراد کو 360 روز سے ضرب دینے سے مجموعہ 18 لاکھ افراد بنتا ہے جو غزہ کی پٹی کی تقریبا دو تہائی آبادی کے برابر ہے۔تاہم ہو سکتا ہے کہ حالات اسرائیلی وزیر سموٹرچ کی چاہت کے خلاف جائیں بالخصوص جب کہ عرب ممالک نے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ پہلے ٹرمپ کی جانب سے اعلان کے بعد ہی اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔گذشتہ ہفتے قاہرہ میں منعقد ہونے والے عرب لیگ کے غیر معمولی سربراہ اجلاس میں غزہ کی تعمیر نو سے متعلق متبادل منصوبہ پیش کیا گیا تھا جس میں اس کی آبادی کی ہجرت کی ضرورت نہیں تھی۔ پانچ برس پر اور دو مراحل پر مشتمل اس منصوبے پر 53 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔سموٹرچ کے مطابق ٹرمپ کا منصوبہ پورے خطے کو بدل سکتا ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais