ریاض،05فروری(ہ س)۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کی جبری ہجرت اور بعض عرب ممالک کی موافقت سے فلسطینی ریاست کے عدم قیام سے متعلق بیان پر سعودی عرب کا رد عمل آ گیا ہے۔سعودی وزارت خارجہ نے آج بدھ کے روز باور کرایا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے مملکت کا موقف پختہ اور اٹل ہے جس کو ہلایا نہیں جا سکتا۔ بیان میں زور دیا گیا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہر گز نہیں ہوں گے۔وزارت خارجہ کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان یہ موقف 18 ستمبر 2024 کو سعودی مجلس شوری میں صریح طور سے واضح کر چکے ہیں۔اسی طرح شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ اٹل موقف 11 نومبر 2024 ریاض میں عرب اسلامی سربراہ اجلاس میں دہرایا تھا۔ انھوں نے باور کرایا تھا کہ 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششیں جاری رہیں گی اور اس ریاست کا دار الحکومت مشرقی بیت المقدس ہو گا۔ بن سلمان نے فلسطینی اراضی پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔سعودی وزارت خارجہ نے باور کرایا ہے کہ مملکت فسلطینی عوام کے قانونی حقوق کو ضرر پہنچانے کو یکسر مسترد کرتی ہے جس میں اسرائیلی بستیوں کی آباد کاری، فلسطینی اراضی انضمام یا فلسطینی عوام کی ان کی سرزمین سے جبری ہجرت کی کوشش شامل ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ آج عالمی برادری کا یہ کردار ہے کہ وہ ان سنگین انسانی مصائب کو ختم کرنے کے لیے کام کرے جن کے بوجھ تلے فلسطینی عوام دبے ہوئے ہیں‘۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ موقف قابل مذاکرات نہیں۔ فلسطینی قوم کے اپنے قانونی حقوق حاصل کیے بغیر مستقل اور منصفانہ امن ممکن نہیں ہے۔ یہ بات سابقہ اور موجودہ امریکی انتظامیہ کو واضح کی جا چکی ہے‘۔سعودی عرب کا یہ موقف منگل کی شام وائٹ ہاوس میں امریکی صدر کی اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ ملاقات میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ ان کاملک غزہ کی پٹی پر قبضہ کر کے وہاں کی آبادی کو دیگر زیادہ محفوظ جگہوں پر منتقل کرنے کا سوچ رہا ہے جن میں اردن اور مصر شامل ہے۔معلوم رہے کہ مذکورہ دونوں ممالک ایک سے زیادہ مرتبہ فلسطینیوں کی جبری ہجرت کو مسترد کر چکے ہیں۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan