واشنگٹن،04فروری(ہ س)۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متوقع طور پر منگل کے روز اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ساتھ امریکی معاملات اور تعاون کو روک دیں گے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی ایجنسی 'انروا' کے لیے امریکی فنڈز کے روکے جانے کو جاری رکھیں گے۔ یہ بات پیر کے روز وائٹ ہاو¿س کے حکام نے بتائی ہے۔اقوام متحدہ کی ایجنسی 'انروا' فلسطینیوں کے لیے انسانی بنیادوں پر کام کرنے والا اہم ترین امدادی ادارہ ہے۔جسے اقوام متحدہ نے 1948 سے قائم کر رکھا ہے۔ تاہم اپنے اتحادی ملک اسرائیل کے ساتھ امریکہ اس ادارے کے خلاف پوری طرح کھڑا ہو گیا ہے۔'انروا' کے حکام نے وائٹ ہاو¿س کے حکام کی طرف سے دی گئی اس اطلاع پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور صدارت جو کہ 2017 سے 2021 پر محیط تھا کے دوران بھی فلسطینیوں کے لیے صحت، تعلیم اور پناہ گزین کیمپوں کا بندوبست کرنے والے ادارے 'انروا' کی امداد میں کمی کر دی تھی۔ اس وقت 'انروا' کی امداد میں کمی کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس طرح فلسطینیوں پر اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کے لیے دباو¿ ڈالا جا سکے گا۔ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ٹرمپ انتظامیہ نے انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے سے بھی علیحدگی اختیار کر لی تھی کہ انسانی حقوق کا یہ ادارہ اسرائیل کے خلاف مسلسل 'تعصب' برت رہا ہے۔امریکہ اقوام متحدہ کے جنیوا میں قائم اس ادارے کا رکن نہیں ہے۔ تاہم 'یو این ہیومن رائٹس کونسل' کا ایک ورکنگ گروپ اس سال ماہ اگست میں امریکہ کے اندر انسانی حقوق کا جائزہ لینے والا ہے۔انسانی حقوق کونسل کی اس مانیٹرنگ کا ہر ملک کو کچھ سال بعد سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ کونسل کے اس انسانی حقوق جائزے کا نفاذ لازمی نہیں ہے اور اس کی رپورٹ محض ایک واقعاتی گواہی کا درجہ رکھتی ہے اور حکومتوں پر اخلاقی دباو¿ کا امکان پیدا ہوتا ہے۔
واضح رہے امریکہ انسانی حقوق کے لیے دنیا بھر میں آواز اٹھانے والا ایک بڑا ہی اہم ملک ہے۔ دنیا میں انسانی حقوق کے حالات کی کمزوری کی بنیاد پر امریکہ دوسرے ملکوں پر پابندیاں بھی عائد کرتا ہے۔ تاہم امریکہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل اور دوسرے اداروں کے ساتھ امریکہ یا اسرائیل میں تعاون کے لیے کبھی بھی خوش دل نہیں رہا۔
اسی طرح بین الاقوامی عدالت جنہیں اقوام متحدہ کی چھتری حاصل ہے ان کے ساتھ بھی امریکہ کے تعلقات مخاصمت پر مبنی ہی رہتے ہیں۔ جیسا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت پر حال ہی میں امریکہ نے پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔اس سلسلے میں امریکہ بعض دیگر بین الاقوامی فورمز کا بھی دستخط کنندہ نہیں ہے اور وہ اپنے آپ کو ان اداروں کے اصولوں اور ضابطوں کا پابند نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاو¿س میں آتے ہی امریکہ نے عالمی ادارہ صحت اور پیرس موسمیاتی معاہدے کے علاوہ ٹیکسوں کے عالمی معاہدے سے بھی علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ماحولیاتی امور پر بھی امریکہ مہذب دنیا کے قائم کردہ فورمز کی پابندی کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر ڈینی ڈینن نے انسانی حقوق کونسل کے لیے صدر ٹرمپ کے متوقع اقدمات کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ اقوام متحدہ کا یہ پلیٹ فارم انسانی حقوق کونسل دنیا میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔
گویا امریکہ و اسرائیل انسانی حقوق کے اس ادارے کے خلاف بھی 'انروا' کی طرح ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ 'انروا' کے سربراہ فلپ لازارینی نے پچھلے ہفتے 'انروا' کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرنے کے لیے اسرائیلی الزامات کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ اسرائیل کی یہ مہم غلط معلومات فراہم کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔یاد رہے ماضی میں امریکہ 'انروا' کو تین سو سے چار سو ملین ڈالر سالانہ فنڈنگ کے طور پر دیتا رہا ہے۔ تاہم صدر جوبائیڈن نے جنوری 2024 کو یہ فنڈنگ روک دی تھی۔ بعد ازاں مارچ 2025 تک امریکی کانگریس نے باضابطہ طور پر 'انروا' کی امداد روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔'انروا' کا ادارہ غزہ، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے علاوہ اردن اور لبنان میں بھی فلسطینی پناہ گزینوں کی انسانی بنیادوں پر مدد کرتا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران حماس کے ساتھ ساتھ 'انروا' کے ٹھکانوں کو بھی بار بار بمباری و حملوں کے لیے نشانے پر رکھا یے اور اب 'انروا' کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کام کرنے سے مکمل روک دیا ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan