
آر ایس ایس جنرل سکریٹری کے بیان پر جمعیةعلماءہند کی سخت تنقیدنئی دہلی،23 دسمبر (ہ س)۔
جمعیة علماءہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کےجنرل سکریٹری( سرکاریہ واہ)دتاتریہ ہوسبالے کے اس بیان پر سخت تنقید کی ہے جس میںانھوں نے مسلمانوں کو سورج، ندی اور درخت کی پوجا کا مشورہ دیا ہے۔ مولانامدنی نے کہا کہ ہندو اور مسلمان اس ملک میں صدیوں سے ایک ساتھ رہتے ا?ئے ہیں، اور مسلمانوں کا عقیدہ توحید اور ان کا طریقہ عبادت کسی سے ذی شعور سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہوسبالے جیسے تعلیم یافتہ شخص سمیت سنگھ کے دیگر کلیدی عہدوں پر فائز افراد نے آج تک اسلام اور مسلمانوں کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
مولانا مدنی نے واضح کیا کہ توحید( ایک خدا پر ایمان اور صرف اسی کی عبادت) اور عقیدہ رسالت، اسلام کے بنیادی ارکان ہیں۔ ان سے بال برابر انحراف کی صورت میں کوئی شخص مسلمان نہیں رہ سکتا۔’ اس وطن کی مٹی اور فطرت سے محبت اور اس کا تحفظ ‘اور ’اس کی عبادت‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ عقیدہ توحید پر ایمان رکھنے والے ہندوستانی مسلمانوں کو خدا کے سوا درخت، دھرتی، سورج، سمندر یا ندی کی پوجا کی دعوت دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ سنگھ’ محبوب اور معبود‘ کے درمیان بنیادی فرق کو سمجھنے اور سمجھانے میں ناکام رہا ہے۔ یہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ سنگھ فکری و عملی طور پر ملک کی رہ نمائی کی اہلیت نہیں رکھتا، یا پھر وہ اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیة علماء ہند نے ہمیشہ خیرسگالی، مکالمہ اور باہمی احترام کے لیے جہد وجہد کی ہے۔ ہم نے آگے بڑھ کر یہ کوشش کی کہ سنگھ اور دیگر ہندوتوا وادی عناصر کے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔ اس سلسلے میں ماضی میں سابق سرسنچالک کے ایس سدرشن وغیرہ سے مذاکرات بھی ہوئے اور آج بھی اس کی دعوت دیتے ہیں اور مذاکرہ کے لیے تیار ہیں۔تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس خیرسگالانہ دعوت کا مثبت جواب دینے کے بجائے سنگھ کے بعض ذمہ داران زیادہ ابتر اور اشتعال انگیز رویہ اختیار کرتے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے عقائد و نظریات کے برخلاف ان پر اپنا طریقہ? عبادت مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں۔
مولانا مدنی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ جمعیة علماءہند کا واضح اور اصولی موقف یہ ہے کہ بھارت میں قومیت کی بنیاد’ وطن ہے۔ اس وطن میں رہنے والے تمام باشندے، خواہ ان کا مذہب یا نظریہ کچھ بھی ہو، ایک قوم ہیں۔ ہمارے نزدیک قومیت کا رشتہ زمین اور اور مشترکہ وطنیت ہے، جب کہ سنگھ قومیت کی بنیاد ہندو کمیونٹی اور ایک مخصوص تہذیبی تصور پر قائم کرنا چاہتا ہے۔مولانا مدنی نے ڈاکٹر بھیم راو¿ امبیڈکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ بھارت میں متعدد تہذیبیں موجود ہیں، صرف ایک ہندو تہذیب نہیں۔ ایسے میں نہ کوئی ایک تہذیب راشٹرواد کی بنیاد بن سکتی ہے اور نہ ہی ہند و کمیونٹی۔ قومیت کی واحد مشترکہ بنیاد وطن ہے۔مولانا محمود اسعد مدنی نے زور دے کر کہا کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور بھارت کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سنجیدہ مکالمہ، باہمی احترام اور آئینی اقدار کے تحفظ کی سمت مو¿ثر اور عملی اقدامات کیے جائیں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais