قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام علی گڑھ کتاب میلے میں تین اہم موضوعات پر مذاکرات کا انعقاد
علی گڑھ/ دہلی،23نومبر (ہ س )۔ آج کتاب میلے کے دوسرے دن '' سماجی روایات رسومات اور محاورات کا زوال :اسباب و امکانات'' ،''اردو زبان کا مستقبل نئی نسل کے حوالے سے، اور'' چلو بات کرکے دیکھتے ہیں (شاعروں سے گفتگو) کے عنوان سے تین اہم مذاکرے منعق
قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام علی گڑھ کتاب میلے میں تین اہم موضوعات پر مذاکرات کا انعقاد


علی گڑھ/ دہلی،23نومبر (ہ س )۔

آج کتاب میلے کے دوسرے دن ' سماجی روایات رسومات اور محاورات کا زوال :اسباب و امکانات' ،'اردو زبان کا مستقبل نئی نسل کے حوالے سے، اور' چلو بات کرکے دیکھتے ہیں (شاعروں سے گفتگو) کے عنوان سے تین اہم مذاکرے منعقد ہوئے۔ 'اردو زبان کا مستقبل نئی نسل کے حوالے سے' میں ڈاکٹر شہناز رحمن، ڈاکٹر مہر فاطمہ، صدام حسین مضمر اور ڈاکٹر شفا مریم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فہمینہ علی نے انجام دیے۔ ڈاکٹر شہناز رحمن نے اپنی گفتگو میں اردو زبان کے پڑھنے اور پڑھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل اردو کی طرف متوجہ ہو رہی ہے، بس ان کی صحیح رہنمائی اور ان کو مناسب پلیٹ فارم فراہم کرنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر مہر فاطمہ نے اردو زبان کی ترویج میں سوشل میڈیا کا مثبت کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج کے لکھنے والے اپنی تخلیقات کو بآسانی بڑے پیمانے پر شیئر کر رہے ہیں اور اس کے ذریعے اردو کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق اردو زبان کی فطری کشش نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ ڈاکٹر شفا مریم نے کہا کہ اردو زبان کا سیکھنا نہایت ضروری ہے، تاہم موجودہ دور میں دوسری زبانوں پر بھی عبور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملٹی لنگوول ہونا نہ صرف فائدہ مند ہے بلکہ عصرِ حاضر کا تقاضا بھی ہے۔صدام حسین مضمر نے کہا کہ اردو زبان ہندوستان کی تہذیبی شناخت کا اہم مظہر ہے آج کے دور میں اس کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر بھی اردو ادب، فلم، موسیقی اور غزل کے ذریعے ایک منفرد مقام بنا چکی ہے۔

چلو بات کرکے دیکھتے ہیں (شاعروں سے گفتگو) مذاکرے میں اردو ادب کے ممتاز شعرا اور نقاد پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر مہتاب حیدر نقوی اور شکیل جمالی نے شامل ہوئے، جبکہ اس مذاکرے کی موڈریشن ڈاکٹر نوشاد کامران نے کی۔پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ شاعری انسانی جذبات کی نہایت لطیف ترجمانی ہے، جو فرد کے اندرونی احساسات کو معاشرے کے بڑے کینوس پر نقش کرتی ہے۔ پروفیسر شہپر رسول نے مشاعرے کی تہذیبی اور سماجی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں مشاعرے محض شعری محفلیں نہیں ہوتے تھے بلکہ ایک مکمل تہذیبی ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔

پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے کہا کہ شاعری الہامی نہیں بلکہ اکتسابی عمل ہے کوئی بھی مصرع

آسمان سے نازل نہیں ہوتا. یہ بھی ٹیبل ورک جیسا عمل ہے ۔ شکیل جمالی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ شاعری انسان کو اس کی داخلی دنیا سے جوڑنے کا ہنر رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج کے تیز رفتار دور میں شاعری انسان کو ٹھہر کر سوچنے، محسوس کرنے اور اپنے باطن سے مکالمہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس مذاکرے میں تینوں شاعروں نے اپنے کلام سے سامعین کو بھی محظوظ کیا۔

ان مذاکروں سے پہلے 'سماجی روایات ،رسومات اور محاورات کا زوال :اسباب و امکانات' پر مذاکرہ منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر احمد مجتبی صدیقی (ڈیپارٹمنٹ آف جیوگرافی. اے ایم یو) ،پروفیسر ویبھا شرما ( ڈیپارٹمنٹ آف انگلش. اے ایم یو)، ڈاکٹر فوزیہ فریدی (ویمنز کالج. علی گڑھ) اور ڈاکٹر ہما پروین (ڈیپارٹمنٹ آف ماس کمیونیکیشن. اے ایم یو) شریک ہوئے۔ اس مذاکرے میں معاشرے میں روایت کی کمزور ہوتی بنیادوں، زبان میں محاوراتی تنزّل اور سماجی اقدار کے بکھرتے ہوئے ڈھانچے پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ شرکائے مذاکرہ نے اپنی گفتگو میں اس امر پر افسوس ظاہر کیا کہ جدیدیت اور تیزی سے بدلتی ہوئی کے زندگی کے طور و طرز نے ہماری قدیم سماجی روایات اور بہتر رسومات کو حاشیے پر دھکیل دیا ہے، جن کا کبھی ہماری تہذیب میں بنیادی مقام ہوا کرتا تھا وہ روایات جو ماضی میں خاندانوں، میل جول اور باہمی احترام کو مضبوط کرتی تھیں، آج تیزی سے ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ شرکا کا کہنا تھا کہ ماضی کی بہت سی روایات نہ صرف سماجی رشتوں کو مضبوط بناتی تھیں بلکہ نوجوان نسل کی تربیت میں بھی بڑی اہمیت رکھتی تھیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان روایات اور رسومات میں کے ان عناصر کا احیا کیا جائے جو انسان کو انسان سے جوڑتے ہیں، سماجی ذمے داری کا احساس پیدا کرتے ہیں اور تہذیبی وقار کو برقرار رکھتے ہیں۔ اس مذاکرے کی موڈریشن زینب فائزہ اسلام نے کی. اس موقعے پر پروفیسر نازیہ حسن نے ایک داستان پیش کی. جس کی موڈریشن خدیجہ نے کی۔علی گڑھ کتاب میلے میں یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ کثیر تعداد میں عمائدین شہر نے شرکت کی اور یہاں کے بک اسٹالوں پر محبان اردو کا ہجوم رہا اور کثیر تعداد میں لوگوں نے اپنے ذوق اور شوق کے مطابق کتابیں بھی خریدیں۔ .

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / عطاءاللہ


 rajesh pande