دیوان شہاب انور میں معنویت اور سہل ممتنع کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے: پروفیسر اختر الواسع
ورکنگ جرنلسٹ کلب کے زیر اہتمام عالمی یوم اردو کے موقع پر کل ہند مشاعرہ اور شعری دیوان ’دیوان شہاب انور‘ کی رسم رونمائینئی دہلی،19نومبر(ہ س)۔ ورکنگ جرنلسٹ کلب رجسٹرڈ کے زیر اہتمام عالمی یوم اردو کے موقع پر غالب انسٹیٹیوٹ میں کل ہند مشاعرہ اور شعری
دیوان شہاب انور میں معنویت اور سہل ممتنع کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے: پروفیسر اختر الواسع


ورکنگ جرنلسٹ کلب کے زیر اہتمام عالمی یوم اردو کے موقع پر کل ہند مشاعرہ اور شعری دیوان ’دیوان شہاب انور‘ کی رسم رونمائینئی دہلی،19نومبر(ہ س)۔

ورکنگ جرنلسٹ کلب رجسٹرڈ کے زیر اہتمام عالمی یوم اردو کے موقع پر غالب انسٹیٹیوٹ میں کل ہند مشاعرہ اور شعری دیوان’دیوان شہاب انور‘ کی رسم رونمائی عمل میں آئی۔ دہلی اردو اکادمی کے تعاون سے منعقد اس تقریب کی صدارت آل انڈیا قومی تنظیم کے جنرل سکریٹری سید قمر الدین نے کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے جبکہ بطور مہمانان ذی وقار غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادر یس احمد اور سماجی کارکن معظم علی خاں موجود رہے۔ دیوان کی رسم رونمائی کے بعد پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ شہاب انور لائق مبارکباد ہیں،کافی زمانہ بعد ہمیں ان کے ذریعہ دیوان دیکھنے کو ملا ہے۔عام طور پر شاعروں کے مجموعہ اور کلیات سامنے آتے ہیں،مگر شاعری کا دیوان کا آنا غیر معمولی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ شہاب انور نے اس دیوان میں اپنے ردیف کے اعتبار سے چیزیں جمع کی ہیں اس کی خاص بات یہ ہے اس میں معنویت ہے اور سہل ممتنع کا مظاہرہ بھی ہمیں اس میں دیکھنے کو ملتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ شہاب انور اچھے شاعر ہیں،امروہہ کی سر زمین سے ان کا تعلق ہے، امروہہ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا تذکرہ شاعری کے بغیر نہیں کر سکتے اور شاعری کا تذکرہ امروہہ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سید قمر الدین نے کہا کہ میرو غالب اور بہادر شاہ ظفر کی دلی جو اردو زبان کی وجہ سے تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہوا کرتی تھی،آج اسی شہر میں اردو کی حالت اچھی نہیں ہے،ایسا نہیں ہے کہ یہاں اردو کے ادارے یا ذرائع نہیں ہیں اصل معاملہ یہ ہے کہ اردو ہمارے گھروں سے اٹھ گئی ہے اور اس کے لئے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج یہ کہاجاتا ہے کہ اردو صرف مدارس میں پڑھائی جاتی ہے بڑی حد تک یہ بات صحیح بھی ہے، ہم نے اپنے بچوں کو اردو، عربی اور فارسی پڑھانا بند کردیا ہے، اس لئے جب ہماری نسلوں میں اردو نہیں ہے، تو ہمارے گھروں سے تہذیب بھی ختم ہو گئی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہم سب لوگ مل کر اپنے گھروں میں اردو کو زندہ کریں اور اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ ورکنگ جرنلسٹ کلب نے یہاں خوبصورت بزم سجائی ہے، مجھے یہاں مہمان بنادیا گیا ہے جبکہ میری حیثیت میزبان کی ہے، ہر وہ پروگرام جو اردو زبان و ادب سے تعلق رکھتا ہے یا جس سے اردو زبان کو فروغ ملتا ہو، غالب انسٹیٹیوٹ اس طرح کی تقریبات کی حوصلہ افزائی اور تعاون کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔صاحب دیوان شہا ب انور نے کہا کہ پچپن سے ہم شاعروں کے شعری مجموعے دیکھ رہے ہیں، میرے دوستوں کا یہ تقاضہ رہا کہ میں شعری دیوان لاؤں اور میں نے کوشش کی کہ حروف تہجی کے ساتھ دیوان لایا جائے جس طرح داغ دہلوی اور غالب کے دیوان ہم نے دیکھے ہیں۔اس خوبصورت محفل کے اہتمام کے لئے میں ورکنگ جرنلسٹ کلب اور اس کے تمام اراکین کا شکر گزار ہوں۔ معظم علی خاں نے شعری دیوان پر شہاب انور کو مبارک باد پیش کی اور امید ظاہر کی کہ جلد ہی ان کا دوسرا دیوان بھی منظر عام پر آئے گا۔اس قبل تقریب کا آغاز حافظ غفران آفریدی کی تلاوت کلام پاک اور قاسم شمسی کی نعت رسول پاک سے ہوا۔ ابتدائی پروگرام کی نظامت کے فرائض کلب کے جنرل سکریٹری محمد احمد نے انجام دیے۔ کلب کے صدر فرزان قریشی نے ورکنگ جرنلسٹ کلب کا تعارف او ر اس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ الحاج غلام محمد عرف راجا بھائی کے ہاتھوں اور دیگر مہمانوں کی موجودگی میں مشاعر ہ کی شمع روشن کی گئی جس کے بعد مشاعرہ کا باضابطہ کا آغاز ہوا۔نظامت کے فرائض معروف ناظم مشاعرہ معین شاداب نے انجام دیے۔ اس موقع پر شہاب انور، ڈاکٹر انا دہلوی، محترمہ راشدہ باقی حیا، محترمہ علینہ عترت، شرف نانپاروی، احمد رضا فراز امروہوی، امیر امروہوی، اقبال فردوسی، قاسم شمسی، امجد آتش کھتولوی اور سیف الدین الدین نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande