اردو اکادمی، دہلی کا اردو ڈراما فیسٹول کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر
آخری روز غالب کی زندگی پر مبنی اردو ڈراما ”قیدِ حیات“ کی شاندار پیشکشنئی دہلی، 16 نومبر(ہ س)۔ مرزا غالب کی شاعری اردو غزل کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے غزل کو محض رومان اور عشقیہ جذبات تک محدود نہ رکھا بلکہ اسے فکر و فلسفہ، انس
اردو اکادمی، دہلی کا اردو ڈراما فیسٹول کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر


آخری روز غالب کی زندگی پر مبنی اردو ڈراما ”قیدِ حیات“ کی شاندار پیشکشنئی دہلی، 16 نومبر(ہ س)۔

مرزا غالب کی شاعری اردو غزل کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے غزل کو محض رومان اور عشقیہ جذبات تک محدود نہ رکھا بلکہ اسے فکر و فلسفہ، انسانی داخلی کشمکش، کائناتی اسرار اور وجودی سوالات کا آئینہ بنا دیا۔ غالب کی شاعری نہ صرف اردو غزل کی معراج ہے بلکہ اس کی فکری گہرائی اور فنی ندرت نے انھیں ہر دور کا شاعر بنا دیا ہے۔ایسا شاعر جس کا ہرشعر ایک نئی دنیا کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود غالب کی شہرت میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ ان کے چاہنے والوں کا دائرہ آج بھی مسلسل وسیع ہو رہا ہے۔ اگرچہ غالب کے فن میں بے شمار خوبیاں ہیں، مگر ان کی ذاتی زندگی ہمیشہ درد، محرومی اور یاسیت کے حصار میں رہی۔ حالات کی سختیوں، مالی تنگی اور مسلسل آزمائشوں نے ان کے دل میں ایسی داخلی اداسی بھر دی تھی جو کبھی کم نہ ہوئی۔

غالب کی زندگی کے یہی پہلو آج اردو اکادمی، دہلی کے ڈراما فیسٹول کے ا?خری روز ”رنگ ساز“ گروپ کے پیش کردہ اردو ڈراما ”قیدِ حیات“ میں مو¿ثر طور پر اجاگر کیے گئے۔ معروف ادیب و ڈراما نگار سریندر ورما کے تحریر کردہ اس ڈرامے کو ممتاز تھیٹر فنکار ڈاکٹر دانش اقبال نے نہایت سلیقے سے اسٹیج کے قالب میں ڈھالا۔ ”قیدِ حیات“ دراصل غالب کی زندگی کے تلخ و شیریں پہلوو¿ں پر مبنی ایک پ±راثر ڈراما ہے، جس میں ان کی معاشی تنگ دستی، گھریلو الجھنیں اور ’کاتبہ‘ نامی عورت سے ان کی المناک محبت کو نہایت دردمندی سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ڈراما تین مناظر پر مشتمل ہے جن میں غالب، ان کی بیوی امراو بیگم، امراو¿کی بہن آپا، غالب کی محبوبہ کاتبہ اور ایک نوآموز شاعر پرویز سمیت کل ا?ٹھ کردار شامل ہیں۔ ہر منظر میں غالب? کے مزاج، ان کی شوخ طبعی، قرض خواہوں سے تکرار اور فنِ شعر کے بارے میں ان کے مخصوص نظریات کی عکاسی کی گئی ہے۔

ڈرامے کا آغاز امراو بیگم اور ان کی بہن کی گفتگو سے ہوتا ہے، جس میں وہ غالب? کے بڑھتے ہوئے قرضوں اور ان کی انتشار بھری زندگی کا ذکر کرتی ہیں۔ اگلے منظر میں غالب? اور نوجوان شاعر پرویز کے درمیان ’تخلص‘ پر ایک دلچسپ اور مزاحیہ علمی بحث پیش کی جاتی ہے۔ بعد ازاں غالب? اور امراو? اپنے ازدواجی مسائل سلجھانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ دوسری جانب کاتبہ بے چینی سے غالب کی راہ تکتی ہے۔ آخری منظر میں ایک سال بعد کی صورتِ حال بیان کی گئی ہے۔ غالب? کلکتہ سے اس حالت میں لوٹتے ہیں کہ ان کی پنشن کی اپیل مسترد ہوچکی ہے اور قرض کی رقم ادا نہ کرپانے کے باعث وہ نظر بند ہیں۔ کاتبہ کی سہیلی شیریں انھیںاس کی بیماری کی اطلاع دیتی ہے۔ ادھر غالب? کاتبہ سے ملاقات کے لیے بے قرار ہیں اور ادھر امراو¿ اپنے شوہر کے اس تعلق پر برہم ہو جاتی ہیں۔ ڈراما کاتبہ کی موت کی خبر پر اپنے جذباتی عروج کو پہنچتا ہے اور غالب? کے دل کی کربناک چیخ اسٹیج پر گونج اٹھتی ہے۔پیشکش کے دوران خوبصورت ملبوسات، موزوں لائٹنگ اور تربیت یافتہ فنکاروں کی عمدہ اداکاری نے ہر منظر کو دلچسپ اور یادگار بنا دیا۔ زبان و بیان کے اعتبار سے ڈرامے کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ ہر مقام پر دہلی کی مخصوص بیگماتی زبان کا بھرپور خیال رکھا گیا اور ہر کردار نے اپنے منفرد لب و لہجے میں مکالمے ادا کیے۔ مختصراً، غالب? کے فن کا سحر پورے ڈرامے پر طاری رہا۔ اختتام پر ناظرین نے اس شاندار پیشکش کو بے حد سراہا اور اردو اکادمی کے 35ویں ڈراما فیسٹیول کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔ڈرامے کے اختتام پر اکادمی کے سینئر کارکن محمد ہارون اور عزیر حسن قدوسی نے اس پ±راثر پیشکش کی قدردانی کے طور پر ہدایت کار ڈاکٹر جاوید دانش کو مومنٹو اور گلدستہ پیش کیا۔ اس موقع پر ڈراما کے شائقین کے علاوہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande