امریکی امداد میں کٹوتی کے بعد یورپ کوبہت بڑا چیلنج درپیش
کوپن ہیگن،24اکتوبر(ہ س)۔ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او یورپ نے اے ایف پی کو بتایا کہ امداد میں سخت خصوصاً امریکہ کی طرف سے ہونے والی کٹوتیوں کے باعث یورپ کے لیے صحت کے وسائل کا بہتر انتظام کرنا بہت اہم ہو گیا ہے۔ڈبلیو ایچ او یورپ کے ہانس کلوج نے یورپی خطے ک
امریکی امداد میں کٹوتی کے بعد یورپ کوبہت بڑا چیلنج درپیش


کوپن ہیگن،24اکتوبر(ہ س)۔ڈائریکٹر ڈبلیو ایچ او یورپ نے اے ایف پی کو بتایا کہ امداد میں سخت خصوصاً امریکہ کی طرف سے ہونے والی کٹوتیوں کے باعث یورپ کے لیے صحت کے وسائل کا بہتر انتظام کرنا بہت اہم ہو گیا ہے۔ڈبلیو ایچ او یورپ کے ہانس کلوج نے یورپی خطے کے 53 ممالک کا اجلاس ہونے سے چند دن قبل ایک انٹرویو میں اے ایف پی کو بتایا، ’ہمیں ایک بہت بڑا چیلنج درپیش ہے کیونکہ ہمارے زیادہ تر پروگراموں کو یو ایس ایڈ اور امریکہ سے فنڈز ملتے تھے۔‘جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدر ٹرمپ نے امریکہ کی طرف سے بین الاقوامی امداد میں کمی کی اور دنیا کی سب سے بڑی انسانی امدادی ایجنسی یو ایس ایڈ کو مو¿ثر طریقے سے ختم کر دیا ہے۔کلوج نے کہا کہ امریکہ کے علاوہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کی نمایاں طور پر کم امداد کی وجہ سے ڈبلیو ایچ او کو بقا کے بحران کا سامنا ہے۔بجٹ میں 20 فیصد کٹوتی کے باوجود ڈبلیو ایچ او یورپ میں صحت کی اندرونِ ملک انتظامیہ میں اپنا کردار بڑھانا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا، مستقبل کا ڈبلیو ایچ او یورپ۔۔ صحت مند، مضبوط، قابلِ اعتماد، شواہد پر مبنی اور سیاسی لحاظ سے غیر جانبدار ہے۔کلوج کا منصوبہ ادارے کی تنظیمِ نو اور اس کے مشنز کو ترجیح دینے پر مبنی ہے۔کلوج نے کہا، موجودہ بحران سے نمٹنے کے لئے ڈبلیو ایچ او یورپ کو دو رویہ نکتہ نظر کی ضرورت ہے جبکہ بنیادی صحتِ عامہ کے پروگراموں کو فعال رکھا جائے۔ یہ (کووڈ-19) وبائی مرض سے سیکھا گیا سب سے بڑا سبق ہے۔مثلاً یوکرین میں یورپ اپنی کوششیں دفاع پر مرکوز کیے ہوئے ہے جبکہ یہ صحت کے لیے ناکافی ہیں۔انہوں نے کہا، یورپ کو اپنی ذہنی صحت کے مسئلے سے بھی نمٹنا چاہیے جو جنگ، تنہائی، اضطراب اور کووڈ کے نتیجے میں بڑھا ہے۔یہ شدید ترین مسائل میں سے ایک ہے، انہوں نے شہریوں میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق چھے میں سے ایک یورپی اور پانچ میں سے ایک بچہ اپنی زندگی میں کسی نہ کسی وقت ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کرے گا۔کلوج نے کہا، ان کی تنظیم کو تشویشناک علاقائی رجحانات بشمول نوجوانوں میں بری عادات، آن لائن تحفظ کی کمی، موسمیاتی بحران اور غیر متعدی امراض سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ہم اپنے چند وسائل ان شعبوں میں استعمال کر سکتے ہیں، انہوں نے اصرار کیا۔ویکسینیشن بھی بہت اہم ہیں، انہوں نے یہ نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ 2023 میں 366,000 ایسے بچے تھے جنہوں نے کبھی کوئی ویکسین نہیں لگوائی تھی۔ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر 440,000 ہو گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ویکسینیشن کے لیے سفر کرنے کی ضرورت، اخراجات اور صحت کے قابل اہلکاروں کی کمی اس کی وجہ بنی اور غلط طبی معلومات بھی بہت زوروں پر تھیں۔ویکسینیشن اخراجات کے لحاظ سے عوامی صحت کا مو¿ثر ترین ذریعہ ہے جو ہمارے پاس ہے۔ تو ہم اسے کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔کلوج نے زور دیا، یورپیوں کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے بھی انسدادی عمل کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔چھپن سالہ ڈاکٹر نے کہا، آپ ایک یورو بیماری کے انسداد پر خرچ کرتے ہیں تو اس سے سات یورو ملتے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ یورپ یورپ کا خیال رکھے۔ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande