جنیوا،04جنوری(ہ س)۔اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج کے نرغے میں گِھرے ہوئے ایک ہسپتال پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ محصور فلسطینی علاقے میں صحت کے حقوق پر صریح حملہ ختم کیا جائے۔اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کے الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دو آزاد ماہرین نے کہا کہ وہ شمالی غزہ کے آخری فعال اور بڑے ہسپتال کمال عدوان پر گذشتہ جمعے کے چھاپے سے خوف زدہ تھے۔ماہرین نے کہا، ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری نسل کشی میں غزہ اور باقی مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر صحت کے حق پر اسرائیل کا بے باکانہ حملہ سزا سے استثنیٰ کو مزید گہرا کر رہا ہے۔یہ مشترکہ بیان فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر اقوامِ متحدہ کی آزاد خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز اور صحت کے حق سے متعلق خصوصی نمائندہ تللینگ موفوکینگ کی طرف سے تھا۔
جنیوا میں اسرائیل کے سفارتی مشن نے اس بیان کو حقیقت سے بہت دور قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا، اس بیان میں تنقیدی حقائق اور حماس کی طرف سے فوجی مقاصد کے لیے شہری بنیادی ڈھانچے کے استحصال کے وسیع تناظر کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔اسرائیلی مشن نے کہا کہ فوج نے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ اس کے اقدامات بین الاقوامی قانون اور شہری بنیادی ڈھانچے کے تحفظ کے لیے اسرائیل کے عزم کو انتہائی مشکل حالات میں بھی نمایاں کرتے ہیں۔اسرائیل کی فوج نے کہا کہ اس نے 20 سے زائد مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک اور 240 سے زائد کو حراست میں لے لیا جن میں ہسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ بھی شامل ہیں۔ انہیں حماس کا مشتبہ مزاحمت کار بتایا گیا ہے۔اپنے بیان میں البانیز اور موفوکینگ نے ابو صفیہ کی حراست پر شدید تشویش کا اظہار اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور ڈاکٹر کو قابض افواج نے ہراساں کیا، اغوا کیا اور من مانی طریقے سے حراست میں لے لیا۔یہ عمل اسرائیل کی طرف سے غزہ میں حقوقِ صحت کو مسلسل بمباری کا نشانہ بنانے، تباہ اور مکمل طور پر ختم کرنے کے نمونے کا حصہ ہے۔یہ خصوصی نمائندگان اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے مقرر کردہ آزاد ماہرین ہیں لیکن عالمی ادارے کی جانب سے بات نہیں کرتے۔ماہرین نے پریشان کن اطلاعات پر بھی روشنی ڈالی کہ اسرائیلی افواج نے مبینہ طور پر ہسپتالوں کے قریب بعض لوگوں کو ماورائے عدالت سزائے موت دی ہے۔ ان میں ایک فلسطینی شخص بھی شامل تھا جس کے پاس مبینہ طور پر امن کا سفید پرچم تھا۔
انہوں نے غزہ کی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کی طرف اشارہ کیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے صحت اور طبی شعبے کے کم از کم 1,057 فلسطینی پیشہ ور افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے جنگ میں صحت کے عملے اور سہولیات پر حملوں کی بڑی تعداد کی بار بار مذمت کی ہے: جنگ کے آغاز سے غزہ اور مغربی کنارے میں صحت کے مراکز پر 1,273 حملے ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس اذانوم گیبریئسس نے ایکس پر خبردار کیا کہ غزہ سے اشد ضروری طبی انخلائ کی رفتار انتہائی سست ہے۔انہوں نے کہا، اکتوبر 2023 سے ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے صرف 5,383 مریضوں کا انخلاءہوا ہے جن میں سے صرف 436 افراد کو گذشتہ سال مئی میں رفح راہداری بند ہونے کے بعد سے نکالا گیا۔انہوں نے مزید کہا، اس شرح سے ان تمام شدید بیمار مریضوں کو نکالنے میں پانچ سے دس سال لگ جائیں گے جن میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں۔ اس دوران ان کے حالات خراب ہو جاتے ہیں اور بعض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan