لاہور، 24 جنوری (ہ س)۔ پاکستان میں آزاد صحافت کی راہ مزید مشکل ہو گئی ہے۔ آزاد صحافت کی حمایت کرنے والے میڈیا آو¿ٹ لیٹس کو سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں آزادی اظہار کی بات بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہ دعویٰ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی تازہ ترین رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے جمعرات کو ملک میں گزشتہ دو سالوں کے دوران اظہار رائے کی آزادی کی صورتحال پر اپنی رپورٹ جاری کی۔ یہ رپورٹ صحافی ماہم مہر کی تحقیق پر مبنی ہے۔ اس میں ان”ناپاک اتحادوں“ پر بھی بات کی گئی ہے جو میڈیا کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں اپریل 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے بعد سے آزادی اظہار کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں میڈیا کے کچھ حصوں پر سخت پابندیوں اور دوسروں کے لیے نرمی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلاشبہ پھندا سخت ہو گیا ہے۔ ایک صحافی کے قتل اور دوسرے کے جبری گمشدگی سے خوف پیدا کیا گیا۔ ڈیجیٹل آزادی کو کنٹرول کرنے کے لیے جان بوجھ کر ”پریس ایڈوائزری“ اور قانونی تبدیلیاں ملک میں آزاد صحافت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سنسر شپ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان ڈیجیٹل میڈیا اس وقت کھل کر لکھ رہا ہے۔ ادھر حکمران اسٹیبلشمنٹ نے بڑے میڈیا ہاو¿سز کے اعتماد کی کمی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ رپورٹ میں ایک ایسی قوم کی بھیانک تصویر پیش کی گئی ہے جہاں قانونی، ادارہ جاتی اور خفیہ دباو¿ کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی سلب کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ تشویشناک نتائج میں سے ایک ”سافٹ ویئر اپ ڈیٹس“ میں اضافہ ہے۔ یہ اصطلاح صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے اغوا، پوچھ گچھ اور جبری تعمیل کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ”سافٹ ویئر اپ ڈیٹس“ کے نتیجے میں اکثر جبری اعترافات ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد ایماندار صحافیوں کو ان کے کردار سے الگ کرنا ہے۔
ایچ آر سی پی کے مطابق صحافیوں کو واضح طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ وہ عمران خان یا ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا نام لینے سے گریز کریں۔ نیوز روم کے ایک عملے نے تین منٹ کی مختصر ملاقات کا ذکر کیا جس میں وفاقی حکومت کے نمائندوں نے حکم دیا تھا کہ عمران خان کا نام آن ائیر نہیں کیا جائے گا۔
رپورٹ میں پاکستان میں سنسر شپ کی متضاد نوعیت پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا کہ بہت سی آوازیں دبا دی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومتی حمایتی بے قابو ہو گئے۔ حکومت سے اختلاف کرنے والوں کی مشکلات بڑھ گئیں۔ جابرانہ صورتحال کے درمیان، ایچ آر سی پی محسوس کرتا ہے کہ سوشل میڈیا مزاحمت کے لیے ایک بڑے پلیٹ فارم کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ایچ آر سی پی نے خبردار کیا کہ تنقیدی آوازوں کو دبانے سے نہ صرف جمہوریت کمزور ہوگی بلکہ اداروں پر عوامی اعتماد کو بھی نقصان پہنچے گا۔ رپورٹ میں آزادی اظہار کے بنیادی حق کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد