نئے فوجداری قانون میں غیر فطری جنسی معاملات سے نمٹنے کے لیے انتظام کی عدم موجودگی پر مرکز کو نوٹس
نئی دہلی، 13 اگست (ہ س)۔ دہلی ہائی کورٹ نے غیر فطری جنسی تعلقات کے معاملے سے نمٹنے کے لیے نئے فوجداری قانون میں کوئی شق کی عدم موجودگی سے متعلق ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس منموہن کی صدارت والی بنچ
Delhi High court


نئی دہلی، 13 اگست (ہ س)۔

دہلی ہائی کورٹ نے غیر فطری جنسی تعلقات کے معاملے سے نمٹنے کے لیے نئے فوجداری قانون میں کوئی شق کی عدم موجودگی سے متعلق ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس منموہن کی صدارت والی بنچ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر ہدایات لے اور اگلی سماعت پر مطلع کرے۔ کیس کی اگلی سماعت 28 اگست کو ہوگی۔

اس معاملے میں عرضی گزار دشت گلاٹی نے کہا کہ اس سے قبل تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کے تحت غیر فطری جنسی تعلقات کے لیے سزا کا انتظام تھا لیکن نئے فوجداری قانون میں اس دفعہ کو ختم کر دیا گیا ہے اور کوئی نئی دفعہ شامل نہیں کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے غیر فطری جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والے مردوں اور ایسے رشتوں کا شکار ہونے والی خواتین کے لیے قانونی ریلیف کے لیے نئے قانون میں کوئی شق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے مرد کو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے تو شکایت کرنے پر بھی ایف آئی آر درج نہیں کی جائے گی۔ جب تک نئے فوجداری قانون میں غیر فطری جنسی استحصال کے خلاف کوئی شق نہیں ہے، ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔

سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ یہ معاملہ متعلقہ وزارت کے سامنے زیر غور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عرضی کو نمٹا دیا جانا چاہئے اور مرکزی حکومت کو عرضی گزار کی رپورٹ پر غور کرنے کا حکم جاری کیا جانا چاہئے، لیکن ہائی کورٹ نے مرکز کی اس دلیل کو مسترد کر دیا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ معاملہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے خلاف تشدد سے بھی جڑا ہے، اس لیے آپ مرکزی حکومت سے ہدایات لے کر آئیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande